پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے منی لانڈرنگ اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے 'ہنڈی' اور 'حوالہ' کے غیر قانونی طریقوں کی روک تھام کے لیے تعزیرات کو مزید سخت کرنے کے لیے متعلقہ قوانین میں ترامیم کی سفارشات منظور کرلی ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ان سفارشات کی منظوری پیر کو وزیرِ خزانہ اسد عمر کے صدارت میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوارن دی گئی۔ ان سفارشات کو اب حتمی منظوری کے لیے وزیرِ اعظم کو بھیجا جائے گا۔
مجوزہ ترامیم فارن ایکسچینج ایکٹ 1947ء، کسٹم ایکٹ 1969ء اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء میں کی گئی ہیں۔
بیان کے مطابق اجلاس میں وزیرِ خزانہ اسد عمر نے منی لانڈرنگ اور غیر بینکنگ چینلز سے رقو م کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے مؤثر مہم جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
واضح رہے کہ ’حوالہ' یا 'ہنڈی' سسٹم بینکاری اور مالیاتی اداروں سے الگ ایسا نظام ہے جس کے ذریعے رقوم غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر منتقل کی جاتی ہیں۔
یہ طریقہ کار عموماً کالے دھن کو سفید کرنے اور دہشت گردی کے لیے فراہم کیے جانے والے پیسے کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل سے متعلق بین الاقوامی نگران ادارہ 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) ایک عرصے سے پاکستان سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے اپنے مالیاتی نظام کو مؤثر بنانے پر زور دے رہا ہے۔
اگرچہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں اس ضمن میں کئی قانونی اور انتظامی اقدامات کیے ہیں لیکن 'ایف اے ٹی ایف' نے ان اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رواں سال جون میں پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا تھا جنھوں نے ادارے کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی وسائل کی روک تھام کے مناسب اقدامات نہیں کیے۔
تاہم اس دوران ہی 'ایف اے ٹی ایف' نے پاکستان کے ساتھ مل کر ایک ایسا لائحۂ عمل بھی مرتب کیا جس پر عمل کر کے پاکستان اس فہرست سے نکل سکتا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کیے گئے تازہ اقدامات بھی 'ایف اے ٹی ایف' کے تجویز کردہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کو موثر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
’پاکستان فوریکس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ہنڈی یا حوالہ کے خلاف موجودہ قوانین کے مؤثر نہ ہونے کے وجہ سے نان بینکنگ چینلز سے رقوم کی ترسیل کو روکنا ایک مشکل امر تھا۔
لیکن ان کے بقول اگر حکومت کی طرف سے اس حوالے سے تجویز کردہ اقدامات کو عملی شکلی دی جاتی ہے تو اس کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہنڈی یا حوالہ کے نظام کے ذریعے رقوم کی ترسیل کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ ایسے اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر کرنے میں بھی مدد ملء گی۔
ان کے بقول منی لانڈرنگ اور رقوم کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے کیوں کہ اس وقت بھی لگ بھگ 30 فی صد لوگ غیر قانونی چینل سے رقوم کی ترسیل کر رہے ہیں۔
ملک بوستان کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے تجویز کردہ اقدامات کی وجہ سے نہ صر ف بیرونِ ملک سے ترسیلِ زر میں اضافہ ہوگا بلکہ بدعنوانی میں بھی کمی آئے گی۔
حالیہ عرصے کے دوران اگرچہ پاکستان نے بینکنگ سسٹم کے کنٹرول کو موثر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ اب بھی حکومت کے لیے ہنڈی اور حوالہ کے نان بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم کی ترسیل روکنا ایک چیلنج ہے۔