دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ترسیل پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جو اس حوالے سے مؤثر اقدمات نہیں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، یہ فیصلہ رواں ہفتے پیرس میں جاری فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران ہوا۔ تاہم، اس کا باضابطہ اعلان ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان محمد فیصل نے کہا ہے کہ اسلام آباد پہلے یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ رواں سال فروری میں ہو چکا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’’ہم پہلے بھی2011ء میں گرے لسٹ میں چلے گئے تھے۔ دو تین سال رہے پھر نکل آئے۔ اور اب بھی اگر ہم نے بین الاقوامی برادری کے تحفظات کو دور کر لیا تو یہ معاملہ ختم ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر، اگر نہیں کریں گے پھر اس میں مسئلے ہو سکتے ہیں۔"
تاہم، انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کے تدارک کے لیے بین الاقومی برادری سے تعاون کر رہا ہے؛ اور ان کے بقول، پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اقتصادی اور بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کے باوجود پاکستان کو 'ایف اے ٹی ایف' کی گرے میں شامل کرنا ایک تشویش کی بات ہے۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اس اقدام سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے یہ صیح ہے کہ پاکستان ماضی میں اس لسٹ میں رہا ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ سے پاکستان کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ہے۔ لیکن، پھر بھی پاکستان چاہتا ہے کہ اس طرح کے چیزیں نا ہوں جو پاکستان کے لیے خفت کا باعث بنتی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "کوشش تو یہ ہونی چاہیئے یہ چیزیں نہ ہوں کہ پاکستان کا تشخص بھی بہتر ہو اور پاکستان کے تجارتی شراکت اور پاکستان سے معاونت کرنے والے ملکوں کو کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو۔"
دوسری طرف اقتصادی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ اس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فیصلے سے پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے کسی قسم کے مشکلات درپیش نہیں ہوگی۔ کیونکہ، ان کے بقول، اس وقت پاکستان میں بیرونی سرمایہ زیادہ تر چین سے کر رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا یہ فیصلہ پاکستان کے لیے بین سطح پر خفت کا باعث بن سکتا ہے۔
طعت مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تجویز کردہ ایکشن پلان کے تحت کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے اقدمات کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنا اسلام آباد کے اپنے مفاد میں ہے۔
حالیہ سالوں میں امریکہ اور بعض دیگر ملکوں کی طرف سے پاکستان پر بعض شدت پسند تنظمیوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔
تاہم، حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے بین الاقوامی برادری کے اس حوالے سے تحفظات دور کرنے کیلئے کئی مؤثر اقدامات کیے، اور ان کے بقول، انہیں سراہا جانا چاہیئے۔