اسلام آباد —
پاکستان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کی ہر ممکن حمایت جاری رکھے گا۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ آئندہ ہفتے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان متوقع ہے اور اس کی حتمی تاریخوں پر ابھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ سیاسی، معاشی، اقتصادی اور تقافتی تعلقات ہیں اور صدر کرزئی کے اس دورے سے ان تعلقات کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
’’یہ دورہ پاکستان میں نئی قیادت آنے کے بعد ایک ایسا موقع فراہم کرے گا کہ جب دونوں ملکوں کی قیادت مثبت تعلقات کو آگے بات چیت کے ذریعے آگے بڑھاوا دے سکے گی، ان میں دو طرفہ تعلقات، سیاسی و اقتصادی اور وہاں (افغانستان) میں جو ہمارے منصوبے جاری ہیں اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘‘
اعزاز چودھری نے بتایا کہ اس دورے میں زیادہ تر توجہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل پر مرکوز ہوگی۔
’’پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امن و مصالحتی عمل کی حمایت کرے گا اور اسی سلسلے میں ہم وہ تمام اقدامات جو اس میں مددگار ہوں کریں گے۔۔۔ پاکستان نے کھلے دل سے اظہار کیا ہے کہ اس ضمن میں جو مثبت چیز ہو سکتی ہے وہ کریں اور افغانستان کے ساتھ اور وہاں کے عوام کےستھ تعاون جاری رکھیں گے۔‘‘
پاکستانی ترجمان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے تناظر میں خطے کی صورتحال بھی افغان صدر کے دورے میں زیر بحث آئے گی۔
مئی میں عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہوگا۔
افغان صدر اور دیگر عہدیداروں کی طرف سے پاکستان پر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو متاثر کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جس سے ان پڑوسی ملکوں کے تعلقات متعدد بار انتہائی کشیدگی کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
لیکن نو منتخب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف متعدد بار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت پرامن اور مستحکم افغانستان کو اپنے ملک کی سلامتی و خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے صدر کرزئی سے ملاقات میں اس موقف کو دہرایا کہ پاکستان کی پالیسی افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور کسی خاص گروپ کی حمایت نہ کرنے پر مبنی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ آئندہ ہفتے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان متوقع ہے اور اس کی حتمی تاریخوں پر ابھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ سیاسی، معاشی، اقتصادی اور تقافتی تعلقات ہیں اور صدر کرزئی کے اس دورے سے ان تعلقات کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
’’یہ دورہ پاکستان میں نئی قیادت آنے کے بعد ایک ایسا موقع فراہم کرے گا کہ جب دونوں ملکوں کی قیادت مثبت تعلقات کو آگے بات چیت کے ذریعے آگے بڑھاوا دے سکے گی، ان میں دو طرفہ تعلقات، سیاسی و اقتصادی اور وہاں (افغانستان) میں جو ہمارے منصوبے جاری ہیں اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘‘
اعزاز چودھری نے بتایا کہ اس دورے میں زیادہ تر توجہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل پر مرکوز ہوگی۔
’’پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امن و مصالحتی عمل کی حمایت کرے گا اور اسی سلسلے میں ہم وہ تمام اقدامات جو اس میں مددگار ہوں کریں گے۔۔۔ پاکستان نے کھلے دل سے اظہار کیا ہے کہ اس ضمن میں جو مثبت چیز ہو سکتی ہے وہ کریں اور افغانستان کے ساتھ اور وہاں کے عوام کےستھ تعاون جاری رکھیں گے۔‘‘
پاکستانی ترجمان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے تناظر میں خطے کی صورتحال بھی افغان صدر کے دورے میں زیر بحث آئے گی۔
مئی میں عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہوگا۔
افغان صدر اور دیگر عہدیداروں کی طرف سے پاکستان پر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو متاثر کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جس سے ان پڑوسی ملکوں کے تعلقات متعدد بار انتہائی کشیدگی کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
لیکن نو منتخب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف متعدد بار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت پرامن اور مستحکم افغانستان کو اپنے ملک کی سلامتی و خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے صدر کرزئی سے ملاقات میں اس موقف کو دہرایا کہ پاکستان کی پالیسی افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور کسی خاص گروپ کی حمایت نہ کرنے پر مبنی ہے۔