انڈونیشیا، پاکستان اور افغانستان کے منتخب علما کی طرف سے جاری ہونے والے فتویٰ میں پرتشدد انتہا پسندی، دہشت گردی اور خود کش حملوں کو اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
اس فتویٰ کا اعلان جمعے کو انڈونیشیا میں تینوں ملکوں کے علماء کے اجلاس کے بعد ہوا جس کا مقصد افغانستان تنازع کے پرامن حل اور افغان طالبان کو تشدد کا راستہ ترک کرکے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کی طرف مائل کرنا تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے صدر جوکو ودود نے کہا کہ یہ اجلاس انڈونیشیا کی ان کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد افغانستان میں قیام امن کے لیے اسلامی علماء اور دانشوروں کے کردار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے فتویٰ میں علماء نے کہا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور وہ پرتشدد انتہاپسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
اگرچہ فتویٰ میں افغان طالبان کا کوئی ذکر نہیں ہے، تاہم اس کا مقصد بظاہر افغان طالبان پر بلواسطہ زور دینا ہے کہ تشدد کو چھوڑ کر وہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف رواں سال فروری میں مذاکرات کی پیش کش کو منظور کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئیں۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس فتویٰ ٰکا بظاہر مقصد افغان طالبان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنی جنگ کو روک دیں۔
بقول ان کے "یہ فتویٰ ٰاس لیے ہے کہ جنگ کو رکوایا جائے۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے شاید یہ اتنا کارگر نہیں ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں اس کا یہ مقصد بھی نہیں ہے۔ یہ تو افغانستان کی حکومت اور حکومت کے حامی علماء ہیں ان کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم اس طرح کا مضبوط فتویٰ دیں اس میں کئی ملکوں کے علماء آئیں گے تو طالبان پر دباؤ پڑے گا کہ وہ جنگ کو روک دیں گے۔"
رحیم اللہ مزید کہتے ہیں کہ یہ فتویٰ طالبان پر اخلاقی دباؤ کا باعث بنے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ "طالبان شاید مطمئن ہیں کہ ان کا نام لے کر ان پر تنقید نہیں کئی گئی ہے۔ لیکن، اشارتاً طالبان کے اوپر ظاہر ہے ایک حرف تو آئے گا کہ وہ خودکش حملے بھی کر رہے ہیں، وہ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں وہ افغانستان کی ریاست یا حکومت کو نہیں مانتے ہیں۔"
رحیم اللہ نے مزید کہا کہ طالبان پر اخلاقی دباؤ تو ہوگا۔ لیکن، ان کے بقول، یہ اخلاقیات کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مختلف قسم کی جنگ ہے جس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ پائیدار سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اگرچہ افغان طالبان کا اس فتویٰ پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم وہ پہلے ہی انڈونیشیا میں ہونے والی کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے علما پر زور دے چکے ہیں کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نا کریں۔ افغان طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ اس کانفرنس کا مقصد غیر ملکی قبضے کے خلاف جاری "مقدس جہاد" کو "غیر قانونی" قرار دینا ہے۔