رسائی کے لنکس

'محض فتویٰ افغانستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں'


انڈونیشیا میں علما کانفرنس کا آغاز 15 مارچ سے ہونا تھا لیکن اب اطلاعات کے مطابق اسے رواں ماہ کے اواخر تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی، افغان اور انڈونیشیا کے منتخب علما کی مجوزہ کانفرنس کے بارے میں پاکستان کے مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت اقدام ہے لیکن یہ مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔

انڈونیشیا کی حکومت کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک متقفہ فتویٰ مرتب کرنا ہے۔

انڈونیشیا میں علما کانفرنس کا آغاز 15 مارچ سے ہونا تھا لیکن اب اطلاعات کے مطابق اسے رواں ماہ کے اواخر تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔

جمعیت ایلحدیث کے ایک مرکزی رہنما حافظ مقصود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کوئی بھی فتویٰ اُسی صورت میں مؤثر ہو گا جب ایسا اتفاق رائے سے کیا جائے۔

’’یہ فتویٰ کوئی انفرادی یا چند ایک کا نہیں ہونا چاہیے۔ فتوے کے لیے ایسا موضوع جس پر تقریباً تمام علما کا اتفاق ہو، اس پر ان کو فتویٰ صادر کرنا چاہیے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ان کا دیا ہوا فتویٰ پھر نزاع کا باعث بن جائے اور علما کے اپنے مابین اختلافات پیدا ہو جائیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے علما ایک حد تک کردار ادا بھی کر سکتے ہیں۔

’’یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ علما کے فتوے سے جو ہے مسئلہ، وہ سارے کا سارا حل ہو سکتا ہے لیکن معاونت مل سکتی ہے حکومتوں کو یہ مسائل حل کرنے میں، لیکن اگر حکومتیں اور علما بھی مخلص ہوں تو۔‘‘

ایک دینی تنظیم 'پاکستان علما کونسل' کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔

’’افغان علما بہت معتبر ہیں۔ طالبان سے منسلک علما اور مفتیان کو بھی بلانا چاہیے۔ افغان علما بھی بیٹھیں۔ باقی دنیا کے علما بھی بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم نے اسلام اور شریعت اور فقہ کے نام پر جمع ہو کر کسی ایک طبقے کو جو ہے بالادست اور دوسرے کو زیر دست کرنا ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے پھر مسائل ختم نہیں ہوتے۔ مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

سینیٹر عثمان کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ علما کانفرنس سے زیادہ پر اُمید نہیں ہیں۔

’’کانفرنس کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ علما کو فیصلے کا اختیار نہیں ہے۔۔۔ اختیار حکومتوں کا ہوتا ہے اور جس ملک کی حکومت جو پالیسی بناتی ہے علما بھی اسے ہی آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘

رواں سال جنوری میں پاکستان میں مختلف مسالک کے سیکڑوں علما نے دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں خودکش حملوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کسی بھی طرح اسلامی عمل نہیں۔

حکومت کی طرف سے اس متفقہ فتوے کو دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ بھی قرار دیا گیا تھا۔

اس فتویٰ پر افغان حکومت نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا تھا کہ دہشت گردی سب ممالک کا مسئلہ ہے اور اس فتوے کو صرف پاکستان تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے تھا۔

XS
SM
MD
LG