پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات متوقع ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں خواجہ آصف نے اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا جس میں دونوں کے درمیان نیویارک میں ملاقات پر اتفاق کیا گیا۔
پاکستان میں قانون سازوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعتماد سازی اور بدگمانیوں کو دور کرنے کے لیے کابل اور اسلام آباد کے درمیان قریبی اور مسلسل رابطوں کی ضرورت ہے۔
حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر روبینہ خالد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ باہمی رابطوں ہی سے دوطرفہ اور علاقائی مسائل کا حل ممکن ہے۔
’’دونوں ملکوں کا رابطہ بہت ضروری ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کا بھی ایک دوسرے سے رابطہ بہت ضروری ہے۔۔۔ ہمارے رابطوں کے تسلسل کی روانی میں کمی ضرور آئی ہے لیکن یہ صدیوں پرانے رشتے ہیں اور اس طرح سے نہ ختم ہو سکتے ہیں اور نہ ختم کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
تجریہ کار اور غیر سرکاری ادارے ’ریجنل پیس انسٹیٹیوٹ‘ کے سربراہ رؤف حسن کہتے ہیں کہ وقت کا تقاضا ہے کہ محض بات چیت ہی نہیں بلکہ حصول امن کے لیے کیے گئے وعدوں کی پاسداری بھی کی جائے۔
’’ہمیں چاہیے ہم نیک نیتی سے بات کریں۔۔۔ ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے لیکن جو کہیں وہ کریں۔۔۔ دیکھیں یہ سارا دباؤ ہی اس وقت تک ہے جب تک پاکستان اور افغانستان کی انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوتی۔ اگر آج پاکستان اور افغانستان اپنے مسائل حل کر لیتے ہیں اور مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف انگلی اٹھائے یا افغانستان کی طرف انگلی اٹھائے۔‘‘
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل کا کہنا ہے کہ حال ہی میں افغان قیادت کی طرف سے سنجیدہ مذاکرات کی خواہش کا پاکستان نے مثبت جواب دیا اور اُن کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے ایک دوسرے کے موقف کا سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔
’’ہم افغانستان کو اپنا بھائی بھی سمجھتے ہیں۔ ہم ان کو اپنا ہمسایہ بھی سمجھتے ہیں جو ہم کبھی تبدیل نہیں کر سکیں گے اور اس ہمسائے کی خوشحالی سے ہماری خوشحالی ہے۔۔۔ دروازہ کھلا ہونا چاہیے۔ جتنی آپ گفت و شنید کریں گے اچھے راستے نکلیں گے۔‘‘
دریں اثنا نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق اس ملاقات میں امن و استحکام کے مشترکہ مقصد کے حصول اور دوطرفہ رابطوں کو مضبوط بنانے پر بات چیت کی گئی۔
بیان کے مطابق تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اس لیے افغانوں کی زیر قیادت سیاسی مذاکرات پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیئے۔
اس موقع پر حکمت کرزئی نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم پر قائم ہے اور اُنھوں نے تمام سطحوں پر رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔