اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ 2014ء میں بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں مفاہتمی عمل کی کامیابی اور مکمل طور پر امن و استحکام کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور وہاں ایک حد تک طالبان شدت پسندوں کی کارروائیاں بدستور جاری رہیں گی۔
اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی نا گزیر ہے تاکہ شدت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ایک ہوتی ہے بین الاقوامی سرحد اور ایک ہوتا ہے فریکل بارڈر اب لائن آف کنٹرول جو ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان اس کو ہم نے تسلیم نہیں کیا لیکن بھارت وہاں خاردار تاریں لگا رہا ہے تو بارڈ کو مینیج کرنا اور چیز ہے ضروری نہیں ہم وہاں کریں ایک دو کلو میٹر اندر بھی کر سکتے ہیں۔ ایک بارڈر کمیشن بنا تھا 2010ء میں اس کو ہم فعال کر رہے ہیں تاکہ بارڈر مینیجمنٹ کو زیادہ فعال بنایا جائے تاکہ مغرب کی طرف نقل وحرکت نہ ہو بغیر اجازت اور ویزا کے نہ مشرق کی طرف۔‘‘
افغان اور امریکی عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش القاعدہ سے منسلک شدت پسند سرحد پار مہلک کارروائیاں کرتے ہیں جس بنا پر ان علاقوں میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کا بھی گزشتہ کچھ عرصے سے کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باعث فرار ہونے والے عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ وقتاً فوقتاً پاکستان میں خونریز حملے کرتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے ایک بار پھر بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت یا کسی خاص گروہ کی حمایت کا خواہاں نہیں بلکہ وہ وہاں جاری مصالحتی عمل کی حمایت کرتا ہے اور اسی سلسلے کو تقویت دینے کے لیے پاکستان نے اپنے ہاں قید 46 طالبان کو رہا بھی کیا۔
’’ضروری نہیں کہ طالبان لیڈر رہا کردہ لوگوں کو مینڈیٹ دیں گے، بالآخر انھوں نے خود اس تک پہنچنا ہے وہ افغان حکومت کو آئین نہیں مانتے تو وہ مصالحتی عمل انھوں نے خود لے کر چلنا ہے اور ان کے ہاں غیر رسمی طور پر رابطے بھی ہورہے ہیں میرا خیال ہے کہ وہاں انتخابات کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئی گی۔‘‘
امریکہ کی طرف سے افغانستان کی سلامتی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک معاہدہ تجویز کیا گیا جس کے تحت امریکی فوجیوں کی ایک محدود تعداد وہاں رہتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دے گی۔ سیاسی و قبائلی عمائدین پر مشتمل افغان لویہ جرگہ نے اس مسودے کو منظور کرتے ہوئے افغان صدر سے اس پر دستخط کرنے کا کہا تھا لیکن صدر کرزئی اس پر پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے سلامتی کے معاہدے پر تب تک دستخط نہیں کریں گے جب تک کہ واشنگٹن افغانستان میں گھروں پر چھاپوں کے خاتمے اور طالبان سے امن مذاکراتی عمل شروع کرنے پر راضی نہیں ہوتا جبکہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ افغان صدر نے رواں سال کے اواخر تک مسودے پر دستخط نہ کیے تو واشنگٹن کے پاس 2014ء کے بعد افغانستان سے مکمل طور پر اپنی افواج واپس بلانے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی نا گزیر ہے تاکہ شدت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ایک ہوتی ہے بین الاقوامی سرحد اور ایک ہوتا ہے فریکل بارڈر اب لائن آف کنٹرول جو ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان اس کو ہم نے تسلیم نہیں کیا لیکن بھارت وہاں خاردار تاریں لگا رہا ہے تو بارڈ کو مینیج کرنا اور چیز ہے ضروری نہیں ہم وہاں کریں ایک دو کلو میٹر اندر بھی کر سکتے ہیں۔ ایک بارڈر کمیشن بنا تھا 2010ء میں اس کو ہم فعال کر رہے ہیں تاکہ بارڈر مینیجمنٹ کو زیادہ فعال بنایا جائے تاکہ مغرب کی طرف نقل وحرکت نہ ہو بغیر اجازت اور ویزا کے نہ مشرق کی طرف۔‘‘
افغان اور امریکی عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش القاعدہ سے منسلک شدت پسند سرحد پار مہلک کارروائیاں کرتے ہیں جس بنا پر ان علاقوں میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کا بھی گزشتہ کچھ عرصے سے کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باعث فرار ہونے والے عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ وقتاً فوقتاً پاکستان میں خونریز حملے کرتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے ایک بار پھر بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت یا کسی خاص گروہ کی حمایت کا خواہاں نہیں بلکہ وہ وہاں جاری مصالحتی عمل کی حمایت کرتا ہے اور اسی سلسلے کو تقویت دینے کے لیے پاکستان نے اپنے ہاں قید 46 طالبان کو رہا بھی کیا۔
’’ضروری نہیں کہ طالبان لیڈر رہا کردہ لوگوں کو مینڈیٹ دیں گے، بالآخر انھوں نے خود اس تک پہنچنا ہے وہ افغان حکومت کو آئین نہیں مانتے تو وہ مصالحتی عمل انھوں نے خود لے کر چلنا ہے اور ان کے ہاں غیر رسمی طور پر رابطے بھی ہورہے ہیں میرا خیال ہے کہ وہاں انتخابات کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئی گی۔‘‘
امریکہ کی طرف سے افغانستان کی سلامتی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک معاہدہ تجویز کیا گیا جس کے تحت امریکی فوجیوں کی ایک محدود تعداد وہاں رہتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دے گی۔ سیاسی و قبائلی عمائدین پر مشتمل افغان لویہ جرگہ نے اس مسودے کو منظور کرتے ہوئے افغان صدر سے اس پر دستخط کرنے کا کہا تھا لیکن صدر کرزئی اس پر پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے سلامتی کے معاہدے پر تب تک دستخط نہیں کریں گے جب تک کہ واشنگٹن افغانستان میں گھروں پر چھاپوں کے خاتمے اور طالبان سے امن مذاکراتی عمل شروع کرنے پر راضی نہیں ہوتا جبکہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ افغان صدر نے رواں سال کے اواخر تک مسودے پر دستخط نہ کیے تو واشنگٹن کے پاس 2014ء کے بعد افغانستان سے مکمل طور پر اپنی افواج واپس بلانے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔