رسائی کے لنکس

سیاسی پناہ کے متلاشی پاکستانیوں کی وطن واپسی میں تعاون کی اپیل


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

انڈونیشیا کی حدود میں حادثے کا شکار ہونے والے بیرون ملک روزگار اور پناہ کے متلاشی پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے اُن کے اہل خانہ نے حکومت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں سے تعاون کی اپیل کی ہے۔

غیر قانونی طور پر انڈونیشیا سے آسٹریلیا جانے والے 200 سے زائد افراد کی کشتی جمعہ کو کرسمس آئی لینڈ سے تقریباً 200 کلومیٹر دور بحیرہ ہند میں ڈوب گئی تھی۔

کشتی میں سے سوار 150 سے زائد افراد پاکستانی نوجوان تھے، جن میں سے اکثریت کا تعلق افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے بتایا گیا ہے۔

ان افراد کے اہل خانہ نے بتایا ہے کہ آسٹریلوی حکام کی حراست میں یا اسپتالوں میں زیرِ علاج 70 سے زائد پاکستانی اب تک اپنے رشتہ داروں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔

کرم ایجنسی کے علاقے پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے شاہد کاظمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ متاثرہ خاندانوں نے حکومتِ پاکستان اور ملک میں سرگرم فلاحی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ لاشوں کی شناخت اور زیرِ حراست افراد کی وطن واپسی کی کوششوں میں تعاون کریں۔

’’ان افراد کے خاندانوں کو بڑی تشویش ہے ... اُنھوں نے مقامی سطح پر حکومت کے نمائندوں سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد میں اعلیٰ حکام سے بات کریں۔ اُن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سانحے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی داد رسی کریں۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ متاثرہ خاندان چاہتے ہیں کہ پاکستان سے ایک خصوصی ٹیم بھی آسٹریلیا بھیجی جائے جو وہاں لاشیوں کی شناخت میں حکام کی مدد کرے تاکہ پاکستانی شہریوں کی لاشوں کی جلد از جلد منتقلی ممکن ہو سکے۔

شاہد کاظمی نے کہا کہ اگرچہ پناہ کے متلاشی تمام افراد غیر قانونی طور پر آسٹریلیا جا رہے تھے لیکن پاکستانی شہری ہونے کے ناتے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے۔

اسلام آباد میں آسٹریلوی ہائی کمیشن کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے افراد کی شناخت اور زندہ بچ جانے والوں سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔

آسٹریلوی حکام کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے 110 افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا جب کہ 17 لاشیں بھی پانی سے نکالی جا چکی ہیں۔

XS
SM
MD
LG