اسلام آباد —
پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی والدہ کو ملک میں لانے کے لیے خصوصی طیارہ یا ائیر ایمبولینس بھیجنے کے لیے تیار ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ ’’حکومت پاکستان (پرویز مشرف کی والدہ) کو علاج معالجے کے لیے تمام سہولتیں بہم پہنچائے گی۔‘‘
سابق صدر کی 95 سالہ والدہ دبئی میں مقیم ہیں اور حکومت کی پیشکش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے صاحبزادے کے ساتھ رہ سکیں اور اُن کا علاج ہو سکے۔
تاہم بیان میں وزیراطلاعات نے ایک مرتبہ پھر یہ واضح کیا کہ پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ ملک کی آزاد عدلیہ کرے گی۔
سابق فوجی صدر کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سب سے اہم تین رکنی خصوصی عدالت میں اُن کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت ہے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت دیگر چار مقدمات میں پرویز مشرف کی ضمانت منظور ہو چکی ہے، تاہم پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔
گزشتہ ہفتے ہی سابق فوجی صدر کے وکلاء نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ پرویز مشرف اپنی علیل والدہ سے ملاقات اور اُن کی عیادت کے لیے دبئی جانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس درخواست پر عدالت کا کہنا تھا کہ صرف وفاقی حکومت ہی پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی مجاز ہے۔
سابق فوجی صدر کی ترجمان آسیہ اسحاق نے حکومت کی پیشکش پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنی جماعت کے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ حکومت کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ پرویز مشرف ملک سے باہر نہیں جائیں گے اور اُن بقول اسی بنیاد پر یہ حکومت نے اُن کی والدہ کو پاکستان واپس لانے سے متعلق بیان دیا ہے۔
پرویز مشرف 11 مئی کے انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے لگ بھگ چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے۔
لیکن مختلف مقدمات میں عدالتی کارروائی کے باعث اُنھیں انتخابات لڑنے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر کو یکم جنوری کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے وفاقی حکومت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دے رکھی ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ ’’حکومت پاکستان (پرویز مشرف کی والدہ) کو علاج معالجے کے لیے تمام سہولتیں بہم پہنچائے گی۔‘‘
سابق صدر کی 95 سالہ والدہ دبئی میں مقیم ہیں اور حکومت کی پیشکش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے صاحبزادے کے ساتھ رہ سکیں اور اُن کا علاج ہو سکے۔
تاہم بیان میں وزیراطلاعات نے ایک مرتبہ پھر یہ واضح کیا کہ پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ ملک کی آزاد عدلیہ کرے گی۔
سابق فوجی صدر کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سب سے اہم تین رکنی خصوصی عدالت میں اُن کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت ہے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت دیگر چار مقدمات میں پرویز مشرف کی ضمانت منظور ہو چکی ہے، تاہم پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔
گزشتہ ہفتے ہی سابق فوجی صدر کے وکلاء نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ پرویز مشرف اپنی علیل والدہ سے ملاقات اور اُن کی عیادت کے لیے دبئی جانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس درخواست پر عدالت کا کہنا تھا کہ صرف وفاقی حکومت ہی پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی مجاز ہے۔
سابق فوجی صدر کی ترجمان آسیہ اسحاق نے حکومت کی پیشکش پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنی جماعت کے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ حکومت کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ پرویز مشرف ملک سے باہر نہیں جائیں گے اور اُن بقول اسی بنیاد پر یہ حکومت نے اُن کی والدہ کو پاکستان واپس لانے سے متعلق بیان دیا ہے۔
پرویز مشرف 11 مئی کے انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے لگ بھگ چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے۔
لیکن مختلف مقدمات میں عدالتی کارروائی کے باعث اُنھیں انتخابات لڑنے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر کو یکم جنوری کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے وفاقی حکومت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دے رکھی ہے۔