رسائی کے لنکس

غداری مقدمہ: مشرف پیش نہ ہوئے، سماعت یکم جنوری تک ملتوی


پرویز مشرف (فائل فوٹو)
پرویز مشرف (فائل فوٹو)

خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے اور انھیں آئندہ پیشی پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے منگل کو مقدمے کی سماعت یکم جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ پیشی کے موقع پر پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنایا جائے اور اس موقع پر اُن کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی۔

تاہم پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور حکومت کے مقرر کردہ پراسکیوٹر پر اعتراضات اٹھائے ہیں جن پر فیصلے کے بعد ہی مقدمے کی مزید کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

سابق صدر منگل کو خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکیل نے سلامتی کے خدشات کے پیش نظر انھیں حاضری سے مستثنیٰ قرار دینے کی استدعا کی۔ تاہم عدالت نے پرویز مشرف کو صرف 24 دسمبر کی پیشی سے استثنیٰ دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر انھیں عدالت میں پش ہونے کا حکم دیا۔

پولیس کے مطابق منگل کی صبح ہی پرویز مشرف کی رہائش گاہ سے عدالت جانے والے راستے پر بارودی مواد برآمد ہوا جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔

استغاثہ کے ایک وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں اور سماعت کے دوران ان کی حاضری کو لازمی قرار دیا جائے۔

سرکاری وکیل نصیر الدین کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ استدعا قانون کے تقاضوں کو انتہائی حد تک پورا کرنے کے لیے کی۔

’’ملزم کا حق ہے کہ فرد جرم اور استغاثہ کی تمام نقول اسے ملیں لیکن فاضل عدالت کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل اگر ان کی غیر حاضری میں یہ وصول کر رہے ہیں تو یہ کافی ہے قانون کے مطابق ہے۔ ہم نے تو ٹرائل کو زیادہ محفوظ، شفاف اور قانونی تقاضوں کو انتہائی حد تک پورا کرنے کے لیے یہ کہا تھا۔‘‘

اس سے قبل جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف وفاق کی درخواست پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں غداری کے مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا وزیراعظم سیکرٹریٹ سے متصل ’نیشنل لائبریری‘ کی عمارت میں کیا۔

اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

کمرہ عدالت کے باہر سابق صدر کے وکلا کی ٹیم نے صحافیوں کو بتایا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی تک پرویز مشرف کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل احمد رضا قصوری نے بتایا کہ منگل کو خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کی طرف سے اس عدالت کے بینچ اور وفاقی کی طرف سے مقررکردہ استغاثہ پر اعتراضات کی دو درخواستیں بھی جمع کروائی گئیں جنہیں سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا۔

’’آئندہ پیشی پر پہلے ان درخواستوں پر بحث ہوگی اور جب تک قانون کے مطابق ان درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا غداری کے مقدمے کی کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی۔‘‘

پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم میں شامل خالد رانجھا کا موقف تھا کہ وفاق کی طرف سے مقرر کردہ استغاثہ جانبدار ہے۔

’’استغاثہ وہ ہوتا ہے جس کی سوچ آزاد ہو، سوچ یہ ہو کہ انصاف کرانا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ ان (استغاثہ) کا وجود پرسیکیوشن (ایذارسانی) کا ہے پراسیکیوشن کا نہیں۔‘‘

وفاقی حکومت کے وزراء پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں جانبداری سے متعلق الزامات کی سختی سے تردید کرتے آئے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ عدالت بالکل آزاد ہے اور حکومت عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے۔

مقدمے کی آئندہ سماعت یکم جنوری کو ہو گی۔

مشرف کے وکلا کا یہ بھی موقف تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وفاقی حکومت کی طرف سے شفاف انداز میں تشکیل نہیں دی گئی۔

تین رکنی بینچ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کر رہے ہیں جب کہ دیگر دو ججز میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر پر شامل ہیں۔

ایک روز قبل اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے پرویز مشرف کی طرف سے ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنی والی خصوصی عدالت، اس کے ججوں اور وفاق کے مقرر کردہ استغاثہ کو چیلنج کرنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG