اسلام آباد —
بھارتی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر پرون پارے نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے اجتناب کرنا چاہیئے کیوں کہ جنگوں اور تعلقات میں کشیدگی نے دونوں ملکوں کی عوام کو ’بھوک و ننگ‘ کے سوا کچھ نہیں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی عوام کو باہمی تنازعات اور جنگوں سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اگر ایمانداری سے آگاہ کیا جائے تو ماحول کی تلخی بہت حد تک کم ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے پیر کو اسلام آباد میں ملاقات کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں جانب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ الزام تراشی کا مقصد کشیدگی کو جاری رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
’’دونوں ملکوں کے لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ تلخیاں غلط ہیں، بے بنیاد ہیں۔ بیشتر الزامات احمقانہ ہیں۔ اب بس ہونا چاہیے 65 سال ان تنازعات کو لے کر چلنا کافی عرصہ ہے۔‘‘
بھارتی سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے وہ اپنے ملک جا کر وکلاء تنظیموں میں اس مقصد کے حصول کے لیے مہم چلائیں گے اور پاکستان میں بھی ان کے ہم منصبوں کو ایسی ہی کاوش کرنے کی ضرورت ہے۔
پرون پارے بھارتی وکلاء کے ایک وفد کی قیادت کر رہے ہیں جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس وفد نے دورے کے دوران لاہور اور اسلام آباد میں سرکاری اور نجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
بھارتی وفد کے اعزاز میں سپریم کورٹ کی عمارت میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چودھری نے افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک معمول کے مطابق ہمسایوں جیسے تعلقات استوار نہیں کر سکے اور بیشتر مسائل پرنا ختم ہونے والے تصادم کی راہ پر چل نکلے۔
انہوں نے قانون دانوں اور وکلاء پر زور دیا کہ وہ دو طرفہ تنازعات کے باعث پیدا ہونے والی باہمی بد اعتمادی اور تلخییوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
’’وکلاء قانون کو بہتر سمجھنے اور عوامی رائے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا وہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے لیے پر امن فضاء قائم کرنے اور بداعتمادی کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں عدالتی اداروں کے مابین ثقافتی، سماجی اور قانونی پس منظر مشترک ہے اس لیے دونوں ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سرحد کے دونوں جانب وکلاء برادری اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی عوام کو باہمی تنازعات اور جنگوں سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اگر ایمانداری سے آگاہ کیا جائے تو ماحول کی تلخی بہت حد تک کم ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے پیر کو اسلام آباد میں ملاقات کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں جانب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ الزام تراشی کا مقصد کشیدگی کو جاری رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
’’دونوں ملکوں کے لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ تلخیاں غلط ہیں، بے بنیاد ہیں۔ بیشتر الزامات احمقانہ ہیں۔ اب بس ہونا چاہیے 65 سال ان تنازعات کو لے کر چلنا کافی عرصہ ہے۔‘‘
بھارتی سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے وہ اپنے ملک جا کر وکلاء تنظیموں میں اس مقصد کے حصول کے لیے مہم چلائیں گے اور پاکستان میں بھی ان کے ہم منصبوں کو ایسی ہی کاوش کرنے کی ضرورت ہے۔
پرون پارے بھارتی وکلاء کے ایک وفد کی قیادت کر رہے ہیں جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس وفد نے دورے کے دوران لاہور اور اسلام آباد میں سرکاری اور نجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
بھارتی وفد کے اعزاز میں سپریم کورٹ کی عمارت میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چودھری نے افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک معمول کے مطابق ہمسایوں جیسے تعلقات استوار نہیں کر سکے اور بیشتر مسائل پرنا ختم ہونے والے تصادم کی راہ پر چل نکلے۔
انہوں نے قانون دانوں اور وکلاء پر زور دیا کہ وہ دو طرفہ تنازعات کے باعث پیدا ہونے والی باہمی بد اعتمادی اور تلخییوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
’’وکلاء قانون کو بہتر سمجھنے اور عوامی رائے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا وہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے لیے پر امن فضاء قائم کرنے اور بداعتمادی کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں عدالتی اداروں کے مابین ثقافتی، سماجی اور قانونی پس منظر مشترک ہے اس لیے دونوں ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سرحد کے دونوں جانب وکلاء برادری اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔