پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان جمعرات کو نئی دہلی میں ملاقات ہو ئی جو نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ ہے۔
تین گھنٹوں سے زائد طویل اس بات چیت کے بعد کو ئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا البتہ بھارت کی خارجہ سیکریٹری نِروپما راؤ اور اُن کے پاکستانی ہم منصب نے الگ الگ نیوز کانفرنس میں زیر بحث آنے والے موضوعات کو تفصیلات بیان کیں۔ دونوں خارجہ سیکریٹریوں کی میڈیا سے گفتگو کو پاکستان کے نجی ٹی چینلز نے براہ راست نشر کیا۔
بھارتی خارجہ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے بعد باہمی اعتماد کی کمی کے باعث ماحول ابھی اتنا سازگار نہیں کہ جامع امن مذاکرات کے سلسلے کو بحال کیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کو بھارت کو لاحق دہشت گردی کے ان خطرات سے آگاہ کیا گیا جن کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور بھارتی سرزمین پر ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بارے میں مہمان وفد کو شواہد بھی دیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ بات چیت میں زیادہ وقت دہشت گردی کا موضوع زیر بحث رہا جب کہ اس دوران پاکستان نے بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت اور پانی کے حوالے سے اپنے خدشات بیان کیے۔ نِروپما راؤ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو بتایا کہ بلوچستان میں مداخلت کے الزامات بے بنیاد ہیں کیوں کہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی بھارت کی پالیسی نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پانی کا تنازع دو طرفہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہی حل کیا جا سکتا ہے اور پاکستانی وفد نے بھارت کے اس موقف سے اتفاق کیا۔
لیکن پاکستانی سفارت خانے میں ایک الگ پریس کانفرنس سے خطاب میں خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے کہا کہ اُن کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور جامع امن مذاکرات بحال کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے بھارت کے ’’لیکچر‘‘ کی ضرورت نہیں۔ ’’اگر بھارت کو مذاکرات بحال کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے تو پاکستان بھی بے قرار نہیں۔ فیصلہ بہر حال بھارت کو کرنا ہے اور وہ پاکستان کو ہمیشہ تیار پائے گا۔‘‘
خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے کہا کہ بھارتی حکام نے دہشت گردی کے بعض حالیہ واقعات میں کچھ پاکستانی عناصر کے ملوث ہونے کے بارے میں تحریری دستاویزات بھی فراہم کی ہیں لیکن ان کے بقول یہ شواہد نہیں محض ایک ادبی تحریر ہے جس کا پاکستان بغور جائزہ لے کر نئی دہلی کو اپنی تحقیقات کے بارے میں آگاہ کرے گا۔
انھوں نے اس تاثر سے اتفاق نہیں کیا کہ دو طرفہ حل طلب امور پر اب تک قابل ذکر پیش رفت نہ ہونے سے ایک نیا میکانزم وضع کرنے کی ضرور ت ہے۔
سلمان بشیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ہی بنیادی تنازع ہے اور اس سمیت دوسرے دو طرفہ تنازعات کو حال کرنے کے لیے 1997ء میں دونوں ملکوں نے جو طریقہٴ کار طے کیا تھا اسی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کی اب تک کی جانے والی کوششیں اور اعتماد سازی کے اقدامات کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جا سکتا ورنہ دونوں ملک یہ نہیں طے کر پائیں گے کہ بات چیت شروع کیسے کی جائے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1