پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے خزانہ رانا افضل نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ برسوں میں کشیدگی کے سبب پاک افغان سرحد کی بندش سے دوطرفہ تجارت کو نقصان پہنچا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان سے تجارت میں اضافے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رانا افضل کا کہنا تھا کہ "خاص طور پر طورخم سرحد پر ہم ایک نئی کسٹم کلیئرنگ سہولت فراہم کر رہے ہیں تاکہ جلد سے جلد ان (افغانستان) کے کنٹینرز کلیئر ہوں۔"
اُنھوں نے کہا کہ افغان حکام بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے راستے ہونے والی ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے جس کے لیے رانا افضل کے بقول کام کیا جا رہا ہے۔
"(تجارتی روابط) ہمارے لیے بھی بہت اہم بات ہے۔۔۔ ہم تو کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے تمام معاملات کو ایڈریس کریں۔ ماضی میں ایک دو مرتبہ بلکہ اس سے زیادہ مرتبہ جو ہمارے بارڈر بند ہوئے، اس کا دوطرفہ تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔"
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی پاکستان افغانستان مشترکہ چمبر آف کامرس نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے سبب گزشتہ دو برسوں میں دوطرفہ تجارت کے حجم میں لگ بھگ 50 فی صد تک کمی آئی ہے۔
رانا افضل نے کہا کہ پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی نگرانی بھی بڑھائی گئی ہے جس سے اُن کے بقول دوطرفہ تجارت میں کچھ کمی آئی ہے۔
"ٹرانزٹ ٹریڈ کے اندر کچھ کسٹم میں نگرانی بڑھی ہے۔ جیسے اسمگلنگ کو ہم نے کچھ کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ٹرانزٹ ٹریڈ میں کمی آئی ہے۔ بہت سارا سامان تھا جو واپس پاکستان آتا تھا۔ اب اس کے اوپر مانیٹر لگا ہوتا ہے۔ وہ افغانستان میں ہی بارڈر پر کھلتا ہے۔ تو جو کمی ہے وہ اس وجہ سے بھی ہے۔"
رواں ماہ ہی پاکستان نے شمالی وزیرستان کے مقام پر افغانستان کے ساتھ واقع غلام خان نامی سرحدی راستہ تقریباً تین سال کی بندش کے بعد دوبارہ کھولا ہے۔
اس بارے میں رانا افضل نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے تمام باضابطہ سرحدی راستے کھولے جائیں۔
شمالی وزیرستان میں مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف 2014ء میں ’ضربِ عضب‘ نامی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے غلام خان کا سرحدی راستہ بند کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ دوطرفہ تجارت اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت پر بھی بات کی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے خواہش مند حلقے اور پاک افغان مشترکہ چمبر آف کامرس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تجارت اور عوامی رابطوں کو سیاسی کشیدگی کے معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔