رسائی کے لنکس

پاک افغان تجارتی حجم میں کمی پر تاجر برادری کی تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان اور افغانستان کی تاجر برداری نے باہمی تجارت کے کم ہوتے ہوئے حجم سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے متعلقہ فورم کا جلد اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ پاکستان کے سیکرٹری تجارت یونس ڈھاگہسے اسلام آباد میںپاکستان اور افغانستان کی تاجر برداری کے مشترکہ نمائندہ وفد کی ملاقات میں سامنے آیا ہے جس میں پاکستان کی تاجر برداری کی نمائندگی زبیر موتی والا نے کی اور افغان تاجر برداری کی طرف سے خان جان الوکوزئی شریک تھے۔

پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے چیئرمین زبیر موتی والا نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی معاملات کو حل کرنے کے لیےافغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈکوآرڈینیشن اتھارٹی کا اجلاس بلاناضروری ہے تاکہ دونوں ملک کے درمیان ٹرنزاٹ ٹریڈ کے مسائل پر بات کی جا سکے۔

انہوں نے کہا "دونوں ملکوں کے درمیان جو تجارت کم ہورہی ہے اس معاملے سے نمٹنے میں وزارت تجارت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کا تجارتی حجم 2.7ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.2ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ دوسالوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل ہیں اس کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی اور پاک افغانستان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کا انعقاد نا ہونا ہے۔ "

دونوں ملکوں کے نمائندہ تجارتی وفد کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا
دونوں ملکوں کے نمائندہ تجارتی وفد کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا

زبیر موتی والا نے مزید کہا کہ انہوں نے پاک افغان تجارت پر اثر انداز ہونے والے معاملات سے بھی پاکستانی حکام کو آگاہ کیا۔

"(برآمدات اور درآمدات پر) دونوں ملکوں کی طرف سے عائد کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کا معاملہ، ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاملے اور دوطرفہ تجارت میںکمی لانے والے اسباب کے بارے میں بھی بات ہوئی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ترجیحی تجارت کا سمجھوتہ طے پانے سے ریگولیٹری ڈیوٹی کے معاملے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ تاجر برادری کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے دونوں ملکوں کو اپنے سیاسی معاملات کو تجارتی معاملات سے الگ رکھنا ہو گا کیونکہ اسلام آباد اور کابل میں تناؤ تجارتی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک تاریخی طور پر ایک دوسرے کے اہم تجارتی شراکت دار رہے ہیں اور دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بہتر کرنے سے دونوں ملکوں کے دیگر معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مدد ملے گی۔

"پاکستان اور افغانسان کے درمیان تجارت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اس کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا ہوگا ۔ اس کے ساتھ دونوں ملکوں کے کروڑوں افراد کی قسمت وابستہ ہے اور ان کا اس پر دارومدار ہے اور دونوں ملک تجارت اور صنعت و حرفت کے شعبوں میں ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تو ان کے تعلقات بھی خوشگوار ہو سکتے ہیں۔"
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تاہم ان سے اسی صورت میں دونوں ملک فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اسلام آباد اور کابل کے سفارتی تعلقات میں بہتری آئے گی۔

XS
SM
MD
LG