رسائی کے لنکس

غلام خان کا سرحدی راستہ کھولنے کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر


شمالی وزیرستان پر پاک افغان سرحد پر واقع ایک پاکستانی چوکی (فائل فوٹو)
شمالی وزیرستان پر پاک افغان سرحد پر واقع ایک پاکستانی چوکی (فائل فوٹو)

حکام نے فیصلے کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا تاہم دعویٰ کیا کہ سرحد گزرگاہ پر کسٹم اور دیگر سرکاری اداروں کے لیے ضروری انتظامات ابھی تک نامکمل ہیں۔

پاکستان کے حکام نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحدی گزرگاہ غلام خان کھولنے کا فیصلے ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا ہے۔

شمالی وزیرستان کی انتظامیہ میں شامل حکام اور فوج کے اعلیٰ افسران نے چند روز قبل غلام خان کی گزرگاہ کو ہر قسم کی آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بدھ، سات مارچ سے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم بدھ کی صبح حکام نے سرحدی راستے کی طرف جانے والی گاڑیوں کو جانے سے روک دیا اور بتایا کہ سرحد کھولنے کے فیصلے کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

حکام نے فیصلے کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا تاہم دعویٰ کیا کہ سرحد گزرگاہ پر کسٹم اور دیگر سرکاری اداروں کے لیے ضروری انتظامات ابھی تک نامکمل ہیں۔

شمالی وزیرستان کے جرگے میں شامل قبائلی رہنما خالد خان داوڑ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں سرحدی گزرگاہ کے کھولنے کے فیصلے کو ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا ہے۔

خالد داوڑ نے کہا کہ فروری کے تیسرے ہفتے میں فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے 'پختون تحفظ تحریک' کے عہدیداروں کے ساتھ اس سر حدی گزرگاہ کو کھولنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ نے اس گزرگاہ کو سات مارچ کو کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی جلد ازجلد اس سرحدی گزرگاہ کو کھولنے کا مطالبہ اس وجہ سے کر رہے ہیں کیوں کہ وہاں روزگار کے ذرائع ناپید ہیں اور سرحدی گزرگاہ کھلنے سے تجارت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

حکام کے اعلان کے بعد قبائلی رہنماؤں اور تاجروں کے ایک مشترکہ وفد نے میران شاہ میں پولیٹیکل ایجنٹ اور جنرل آفیسر کمانڈنگ کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے تاہم ابھی تک ان رابطوں کے نتائج کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔

غلام خان، طور خم اور چمن کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تیسری اہم سرحدی گزرگاہ ہے جسے 15 جون 2014ء کو اس وقت بند کردیا گیا تھا جب فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ضربِ غضب کے نام سے فوجی کاروائی شروع کی تھی۔

لگ بھگ ایک قبل اس سرحدی گزرگاہ کے راستے آپریشن کے باعث قبائلی علاقوں سے افغانستان نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی واپسی شروع ہوئی تھی جو ازاں اکتوبر 2017ء کو معطل کر دی گئی تھی۔

نقل مکانی کرنے والے والوں کی واپسی کا سلسلہ چند روز قبل دوبارہ شروع ہوچکا ہے لیکن سرحدی گزرگاہ سے تجارت اور معمول کی آمد و رفت تاحال معطل ہے۔

XS
SM
MD
LG