پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مابین صدارتی انتخاب میں متفقہ امیدوار کے نام پر اختلافات دور نہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں نے متحدہ مجلسِ عمل کے صدر اور جمعیت علماءِ اسلام کے (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخاب میں پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کو امیدوار نامزد کیا گیا تھا تاہم مسلم لیگ (ن) نے ان کے نام پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔
گزشتہ روز ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کا نام واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) نے حزبِ اختلاف کے متفقہ صدارتی امیدوار کے لیے رضا ربانی اور یوسف رضا گیلانی کا نام تجویز کیا تھا تاہم پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے نام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی۔
اس پر مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے جنہیں متحدہ مجلسِ عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی نامزدگی کے بعد صدارتی انتخاب کے لیے تین امیدوار میدان میں آگئے ہیں جن میں حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی اور پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار بیرسٹر اعتزاز احسن شامل ہیں۔
تینوں نامزد امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے۔
صدارتی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق امیدوار کاغذاتِ نامزدگی پیر کو دن 12 بجے تک پریزائیڈنگ افسران کے پاس جمع کراسکتے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پریزائیڈنگ افسران ہیں۔
پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔
ان کے ہمراہ پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ، شیری رحمان، نوید قمر اور قمر زمان کائرہ بھی تھے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے کاغذاتِ نامزدگی بھی ان کے وکیل نے پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلسِ عمل، اے این پی، نیشنل پارٹی اور پی کے میپ کے رہنما بھی موجود تھے۔
تحریکِ انصاف کے نامزد امیدوار ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اپنے کاغذاتِ نامزدگی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے۔
ملک کے نئے صدر کا انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق امیدواروں کی حتمی فہرست 30 اگست کو جاری کی جائے گی۔
صدارتی الیکشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکانِ پارلیمنٹ میں ایک ہی جگہ ووٹ ڈالیں گے جب کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی پولنگ اسٹیشن بنیں گی۔
قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔
پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی میں کسی امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کو بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد یعنی 65 سے ضرب دے کر متعلقہ صوبائی اسمبلی کی کل تعداد سے تقسیم کیا جائے گا۔
اس فارمولے کے مطابق صدارتی انتخاب میں تینوں اسمبلیوں کے بھی بلوچستان اسمبلی کے برابر یعنی 65، 65 ووٹ ہیں۔
صدر کے انتخاب کے لیے ووٹرز کی مجموعی تعداد 636 ہے مگر 614 ووٹ ڈالے جا سکیں گے کیوں کہ قومی اسمبلی کی 11 اور پنجاب اسمبلی کی 13 نشستیں خالی ہیں۔
بلوچستان اور سندھ اسمبلی کی دو، دو جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی نو نشستوں پر بھی ضمنی الیکشن ہونا باقی ہے، صرف سینیٹ کے تمام 104 ووٹ مکمل ہیں۔