کہتے ہیں ’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘ ۔۔ واقعی درست ہے یہ۔ خواتین میں سن 1970 کا ہیر اسٹائل دوبارہ ’ان ‘ ہو رہا ہے۔ کپڑوں کے ڈیزائن پھر سے پرانی طرز پرآنے لگے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ شادی کے وہ رسم و رواج جنہیں نئی جنریشن جانتی بھی نہیں تھی اب ’ماڈرن اسٹائل‘ کے روپ میں دوبارہ عام ہونے لگے ہیں۔ جیسے بگھی میں دولہا دلہن کا آنا، دلہن کی ’پالکی‘ ، ’ڈولی‘ یا ’پینک‘ میں سوار ہو کر سسرال جانا۔
پھر اس پالکی کو اٹھانے والے’ کہاروں‘ ،بارات کے آگے آگے چلنے والے بینڈ باجے والوں اور ڈھولک والوں کی ’وائلڈ کارڈ ‘ اینٹری ہونے لگی ہے۔
فرق ہے تو صرف اتنا کہ پہلے بگھی چند روپوـں میں مل جاتی تھی مگر اب یہ ہزاروں کی بات ہے۔ کراچی کے سولجر بازار میں سب سے زیادہ بگھیاں کرایہ پر ملتی ہیں۔ ان بگھیوں کا کاروبار کرنے والے حاجی امیر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’ایک بگھی چار سے آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے جبکہ اس کا چند گھنٹوں کا کرایہ 8 سے 12 ہزار روپے ہے۔ ‘
’کرایوں میں اتنا فرق کیوں؟ ‘ وی او اے کے اس سوال پر حاجی امیر خان نے بتایا’ بگھیاں چھوٹی بڑی اور درمیانی ہوتی ہیں۔ جتنی چھوتی بگھی ہو گی اس کی سجاوٹ اور لائٹنگ بھی کم ہو گی جبکہ بڑی یا فل سائز کی بگھی کی سجاوٹ، لائٹنگ اور دیگر سہولیتیں بھی اسی حساب سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ ‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’کچھ بگھیاں دو تو کچھ میں چار گھوڑے جتے ہوتے ہیں جو اعلیٰ نسل کے شمار ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور انہیں پالنے پر بھی اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔‘
اگرچہ بگھیوں کا رواج زور پکڑ رہا ہے جیسا کہ لسبیلہ کے علاقے میں رہنے والے بگھیوں کے ایک اور مالک ’شاہنواز خان بتاتے ہیں کہ انہوں ایک ڈیڑھ سال پہلے ہی یہ کام شروع کیا تھا لیکن آج وہ سات بگھیوں کے مالک ہیں۔ ان کے بقول ’ہمارا کام تو صرف چند منٹ کا ہوتا ہے د ولہا کو گھر سے لیا اور شادی ہال تک چھوڑ دیا۔ بس اتنی سی دیرکا کرایہ 7سے دس ہزار روپے۔ ‘
لب لباب یہ ہے کہ پرانی رسم کی واپسی ’مہنگے داموں ‘ ہوئی ہے۔ صرف شوقین یا پیسے کی ریل پیل میں رہنے والے افراد ہی بگھی میں دلہا دلہن کو بیٹھتے ہیں ۔‘
دولہا بگھی میں بارات لے کر پہنچے تو دلہن والے کب پیچھے رہنے والے ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں شادی ہالز کی بھرمار ہے وہاں دلہن کی ڈولی میں رخصتی کے پرانے منظر پھر سے نظر آنے لگے ہیں۔
ڈولی بھی ایسی کہ پھولوں سے لدی ہوئی۔ کہارے بھی کون ۔۔دلہن کے بھائی اور قریبی رشتے دار۔ سخی حسن کے علاقے میں واقع شادی ہالز سے نکلتی دلہن کو ڈولی میں بیٹھا کر کندھوں پر ڈولی اٹھاتے ہر شام دیکھ جاسکتا ہے۔
جو لوگ بگھی اور ڈولی کا خرچ برداشت نہ کرسکیں ان کے لئے گلبرگ میں واقع پھول والوں کی دکانوں پر سائیکل رکشا کھڑے مل جاتے ہیں حالانکہ سائیکل رکشا پاکستان میں سن 70 کے آس پاس ہی بند ہو گئے تھے لیکن رنگ برنگی روشنیوں اور پھولوں سے لدے سائیکل رکشا دلہا اور دلہن کو شادی ہال لانے اور لے جانے کے لئے ہر روز تیار ملتے ہیں۔
پھولوں کے بغیر شادی بیاہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور اگر کیا بھی جائے تو ایک بے رنگ سی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ شادی اور دیگر خوشی کے موقعوں کو رنگین اورخوبصورت بنانے میں جس چیز کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے وہ مختلف اقسام کے خوشنما اور عمدہ خوشبو والے ’پھول ‘ ہیں۔
ان پھولوں کو دیدہ زیب سجاوٹ کا روپ دینے والے عرف عام میں ’پھول والے‘ کہلاتے ہیں جو کسی مصروف سڑک کے کنارے چھوٹے سے کیبن سے لے کر بڑی بڑی دکانوں تک اپنے ہنر سے پھولوں کے حسن کو نمایاں کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
شادی کی تمام تقریبات میں پھول استعمال ہوتے ہیں جس میں دلہن کی ڈولی،دلہا کی گاڑی، حجرہ عروسی یا نئے جوڑے کا کمرہ، شادی ہال، لڑکا اور لڑکی کے لئے بنایا گیا اسٹیج اور ہال کی دیواریں اور جگہ جگہ لگے گلدستے یا گل دان۔۔ سب شامل ہے۔