واشنگٹن —
چین کے وزیرِ خارجہ نے افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک کی سکیورٹی کا دارومدار افغانستان میں قیامِ امن سے ہے۔
ہفتے کو کابل میں اپنے افغان ہم منصب ضرار احمد عثمانی کے ساتھ ملاقات کےبعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام نہ صرف چین کے مغربی علاقوں کی سکیورٹی بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوش حالی کا سبب بنے گا۔
چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایک تقسیم ملک کا کوئی مستقبل نہیں اور چین افغانستان میں جلد از جلد ایک ایسی وسیع تر سیاسی مفاہمت ہوتے دیکھنا چاہتا ہے جس میں تنازع کے تمام فریق شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس مفاہمتی عمل میں مدد دینے کے لیے ایک تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔
حالیہ برسوں میں کسی اعلیٰ چینی رہنما کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے افغانستان کے معاملات میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مظہر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
چین کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے کی سرحد افغانستان سے لگتی ہے اور 2014ء کے آخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں پیدا ہونے والی سکیورٹی کی ممکنہ صورتِ حال چین کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے۔
چین بطورِ خاص اپنے مسلم اکثریتی مغربی علاقے سنکیانگ میں جاری مسلح مزاحمت سے پریشان ہے اور چینی حکام کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہونے سے سنکیانگ میں جاری مزاحمت بھی زور پکڑ سکتی ہے۔
چینی حکومت ماضی میں الزام عائد کرتی آئی ہے کہ سنکیانگ کے مسلمان علیحدگی پسندوں کو پڑوسی ملکوں پاکستان اور افغانستان سے مدد ملتی ہے۔
سکیورٹی کے ان خدشات کے پیشِ نظر چین کی حکومت نے حالیہ مہینوں میں افغان بحران کے مختلف فریقوں سے براہِ راست رابطوں میں اضافہ کردیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ نے بھی رواں ماہ روس کے شہر سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد دینے کا اعادہ کیا تھا۔
افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کےباوجود چین افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر کی کھوج اور کا ن کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند بھی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون ' کے اندازوں کے مطابق ان معدنی ذخائر کا تخمینہ 10 کھرب ڈالر ہے۔
چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ خارجہ وانگ یی اپنے دورۂ افغانستان کے دوران صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے۔
جناب وونگ یی نے اس سے قبل آخری بار کابل کا دورہ 2002ء کے اوائل میں کیا تھا جب وہ چین کے نائب وزیرِ خارجہ تھے۔ امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہونے والے اس دورے کے دوران انہوں نے کابل میں چین کے سفارت خانے کا افتتاح کیا تھا۔
ہفتے کو کابل میں اپنے افغان ہم منصب ضرار احمد عثمانی کے ساتھ ملاقات کےبعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام نہ صرف چین کے مغربی علاقوں کی سکیورٹی بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوش حالی کا سبب بنے گا۔
چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایک تقسیم ملک کا کوئی مستقبل نہیں اور چین افغانستان میں جلد از جلد ایک ایسی وسیع تر سیاسی مفاہمت ہوتے دیکھنا چاہتا ہے جس میں تنازع کے تمام فریق شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس مفاہمتی عمل میں مدد دینے کے لیے ایک تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔
حالیہ برسوں میں کسی اعلیٰ چینی رہنما کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے افغانستان کے معاملات میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مظہر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
چین کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے کی سرحد افغانستان سے لگتی ہے اور 2014ء کے آخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں پیدا ہونے والی سکیورٹی کی ممکنہ صورتِ حال چین کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے۔
چین بطورِ خاص اپنے مسلم اکثریتی مغربی علاقے سنکیانگ میں جاری مسلح مزاحمت سے پریشان ہے اور چینی حکام کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہونے سے سنکیانگ میں جاری مزاحمت بھی زور پکڑ سکتی ہے۔
چینی حکومت ماضی میں الزام عائد کرتی آئی ہے کہ سنکیانگ کے مسلمان علیحدگی پسندوں کو پڑوسی ملکوں پاکستان اور افغانستان سے مدد ملتی ہے۔
سکیورٹی کے ان خدشات کے پیشِ نظر چین کی حکومت نے حالیہ مہینوں میں افغان بحران کے مختلف فریقوں سے براہِ راست رابطوں میں اضافہ کردیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ نے بھی رواں ماہ روس کے شہر سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد دینے کا اعادہ کیا تھا۔
افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کےباوجود چین افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر کی کھوج اور کا ن کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند بھی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون ' کے اندازوں کے مطابق ان معدنی ذخائر کا تخمینہ 10 کھرب ڈالر ہے۔
چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ خارجہ وانگ یی اپنے دورۂ افغانستان کے دوران صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے۔
جناب وونگ یی نے اس سے قبل آخری بار کابل کا دورہ 2002ء کے اوائل میں کیا تھا جب وہ چین کے نائب وزیرِ خارجہ تھے۔ امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے چند ماہ بعد ہونے والے اس دورے کے دوران انہوں نے کابل میں چین کے سفارت خانے کا افتتاح کیا تھا۔