گزشتہ نصف صدی کے دوران کھانے پینے کی اشیا کو پلاسٹک کے ڈبوں، بوتلوں اور پیکٹوں میں بند کرنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ پلاسٹک عموماً پیٹرول کے مرکبات سے بنایا جاتا ہے اور اسے استعمال کے بعد ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ پلاسٹک کا یہ کوڑا کرکٹ نہ صرف ہماری زمین بلکہ سمندروں کو بھی آلودہ کر رہا ہے ، جس سے آبی حیات کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں ۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کا ایک ادارہ فائیو جائرز اس مسئلے کے حل کی کوششیں کررہاہے۔
ادارے سے وابستہ ایرکسین عالمی سطح پر سمندروں ٕمیں پلاسٹک کی ردی کے پھیلاؤ اور آبی حیات اور انسانوں پر بحری آلودگی کے منفی اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندروں میں پانچ خطے ایسے ہیں جہاں دنیا میں ضائع کیا جانے والا بیشتر پلاسٹک جمع ہوجاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان خطوں میںٕ زمین کی گردش اور پانی کے بہاؤکی وجہ سے ایک ایسا بھنور وجود میں آتا ہے جہاں پانی کی گردش میں کوڑا کرکٹ جمع ہوسکتا ہے۔
کمینزاور ان کے شوہر ایرکسین , کیلی فورنیا کے فائیو جائرز نامی ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارے کے بانی ہیں جو سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
کمینز کہتی ہیں کہ گزشتہ 100 سال کے عرصے میں پلاسٹک کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے، جسے بہت جلد ضائع کر دیا جاتا ہے۔اور پلاسٹک کی نسبت ان اشیا اور قدرتی مادوں کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے، جنہیں ایک طویل عرصے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کے بعد پلاسٹک کے تھیلوں یا بوتلوں کو بے کار سمجھ کر یا تو ردی میں ڈال دیا جاتا ہے یا ندیوں اور دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ پلاسٹک سمندروں تک پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ پانی کے ساتھ بہتا رہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پلاسٹک ایک پائیدار مادہ ہے، یہ بحری ماحول کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔پلاسٹک نہ تو پانی میں گھلتا ہے، نہ بحری جاندار اس سے غذا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ مادہ کئی ہزار برسوں تک سمندروں میں اسی طرح موجود رہ سکتا ہے۔
سمندروں کا سفر کرتے ہوئے انہوں نے باریک جال کی مدد سے پانی کی سطح سے جو کوڑا جمع کیا ہے، اس پر امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک لیبارٹری میں تحقیق کی جارہی ہے۔
ایرکسین کہتے ہیں کہ سمندروں میں جو پلاسٹک موجود ہے، وہ کسی ایک جگہ جمع نہیں، بلکہ یہ بہت وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے پلاسٹک کا شوربہ کہنا غلط نہیں ہوگا جو ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔
بعض اوقات جانور اس پلاسٹک کو غذا سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔ ہر سال کئی سو بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔
کمینز کا کہنا ہے کہ تقر یبا 43 فی صد بحری جانوروں ، 86 فی صد سمندری کچھووں اور 44 فی صد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا گیا ہے، یا ان کے گرد لپٹا ملا ہے۔ ہم نے بحرالکاہل کے شمالی علاقوں سے جو مچھلیاں جمع کیں ان میں تقریبا 35 فی صد کے پیٹ میں پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔
پلاسٹک کے اثرات صرف سمندری حیات کو ہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ کمینز کہتی ہیں کہ اپنے خون پر کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعدمجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے خون میں بہت سے ایسے کیمیائی مرکبات موجود ہیں جو پلاسٹک کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے خون میں انسانوں کے بنائے بہت سے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے جس میں ڈی ڈی ٹی، پی ایف سی اور آگ کا پھیلاؤ روکنے والے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ تمام مرکبات میرے خون میں کس طرح شامل ہوئے۔ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے میں یہ جانتی ہوں کہ یہی کیمیائی مرکبات میرے خون سے میری اولاد کے خون میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے علاوہ ایرکسین اور کمینز دونوں پلاسٹک کے متبادل مواد کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے ان کی صحت کو کیا خطرے درپیش ہیں۔ اگلے ماہ وہ دونوں سمندروں میں اپنے آخری سفر کا آغاز کریں گے۔ بحر الکاہل کے جنوبی خطے کے اس سفر کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب لکھیں گے، اور سائنسی کمیونٹی کو اپنی تحقیق کے نتائج کے بارے میں بھی بتائیں گے۔