رسائی کے لنکس

آکیوپائی وال سٹریٹ مظاہرین کی انفرادیت


آکیوپائی وال سٹریٹ مظاہرین کی انفرادیت
آکیوپائی وال سٹریٹ مظاہرین کی انفرادیت

ان مظاہرین کو کوئی ایک موضوع متحد نہیں کر رہا۔یونینوں سے تعلق رکھنے والے کسی بڑے کارپوریشن کی لیبر پالیسیوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ کوئی بینک کاروں کو جیل بھیجوانا چاہتے ہیں اور کسی کا کہناہے کہ سیاست دان بڑی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

آکیوپائی وال سٹریٹ کے شرکا گذشتہ کئی ہفتوں سے نیویارک کے اہم مالیاتی مرکز وال سٹریٹ کے قریب ایک پارک میں اپنے خیمے لگا کر ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ملکی معاشی پالیسیوں اور بڑے مالیاتی اداروں پر ان کا غصہ تو مشترک ہے، لیکن ان کا احتجاج کا طریقہ ا یک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔

دور سے تو آکیو پائے وال سٹریٹ کے مظاہرین بس ایک ہجوم کا حصہ دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن قریب سے دیکھیں تو ان میں شامل لوگ کافی دلچسپ نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی صاف ستھرا ہے اور کوئی بد حال اور عجیب و غریب، کوئی خود میں مگن ہے اور کوئی دن رات شور مچا رہا ہے ، کوئی صفائی میں مصروف ہے ، کوئی آرام سے بیٹھا ہے، کوئی سو رہا ہے، کسی نے چہرے پر ماسک پہنا ہے اور کوئی کسی مقصد کے لیئے دوسروں کی حمایت حاصل کر رہا ہے۔

میڈیا یہ مناظر دنیا بھر میں دکھا رہا ہے لیکن ریاست شمالی کیرولائنا سے آئے جوئل گولڈن ٹائرکہتے ہیں کہ مٕیڈیا صرف عجیب و غریب لوگوں پر توجہ دے رہا ہے نہ کہ مظاہرین کے سنجیدہ پیغام پر۔ ان کا کہناتھا کہ میں چاہوں گا کہ عام لوگوں کی بات سنی جائے۔ یہ مختلف انداز سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی کے سکھائے ہوئے نظریے کو آگے نہیں بڑھا رہے بلکہ اپنے دل کی بات کہہ رہے ہیں۔

ان مظاہرین کو کوئی ایک موضوع متحد نہیں کر رہا۔یونینوں سے تعلق رکھنے والے کسی بڑے کارپوریشن کی لیبر پالیسیوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ کوئی بینک کاروں کو جیل بھیجوانا چاہتے ہیں اور کسی کا کہناہے کہ سیاست دان بڑی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ مظاہرے میں شامل کچھ خواتین سزائے موت کے خلاف ہیں اور تعلیمی نظام کو ایک کاروبار قرار دے رہی ہیں، جبکہ کچھ نوعمر طالب علم دولت کے غلط استعمال کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔

یہ سب ہی مظاہرین وال سٹریٹ کو اپنے احتجاج کا مرکز بنائے ہوئے ہیں لیکن ان کا اصل مسئلہ دولت کا غلط استعمال ہے جو ان کے مطابق ایک فیصد امریکیوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ماہر معاشیات لورنس براہم کہتے ہیں کہ بڑی کارپوریشنیں انتخابی مہم میں چندہ دے کر بعد میں سیاست دانوں سے من مانی پالیسیاں منظور کرواتی ہیں جس کا نقصان دیگر99 فیصد امریکیوں کو ہوتا ہے۔

یہاں امریکہ کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے بڑی کارپوریشنوں اور نظام کی تباہی کا پیغام دیتے پرچموں کے ساتھ یہاں امریکہ کا جھنڈا لہراتا بھی دکھائی دے رہاہے ۔ اور یہیں پورٹو ریکو ، اور چین کے پرچم اور نہ جانے کیا کیا کچھ موجود ہے۔

جوئل کہتے ہیں کہ ہم سب میں مشترک قدر یہ ہے کہ ہم ایک منصفانہ معاشرہ چاہتے ہیں۔ جہاں نسل پرستی، جنگ اور امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ کم ہو۔

وال سٹریٹ کے مالیاتی اداروں نے اب تک ان مظاہروں کو نظر انداز کیا ہے ۔ اورامریکی حکومت نے بھی ان کے مطالبات کے جواب میں کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا۔ اس تحریک کا نہ تو کوئی ایک راہنما ہے اور نہ ایک مشترکہ ایجنڈا، اسی لیے باہر سے دیکھنے والے انہیں اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ کے لیئے یہ افراتفری کی تصویر ہیں اور کچھ کے لیئے جمہوریت کی۔

XS
SM
MD
LG