امریکہ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف قبضہ احتجاج جو نیویارک سے شروع ہوا تھا اب امریکہ میں 1400 مختلف مقامات تک پھیل چکا ہے۔ اس تحریک کا کوئی لیڈر یا خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تبدیلی لانے کے لیے اس ڈھیلے ڈھالے احتجاج کو ایک باضابطہ تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
امریکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اس تحریک کے مظاہرے میں دو ہزار نرسوں نے شرکت کی جو وال سٹریٹ میں حصص کے کاروبار پر بھی ٹیکس لگانے اور تعمیری ڈھانچے کے روزگار اور انسانی ضروریات کے لیے محاصل کی آمدن بڑھا نے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔لیکن صدر اوباما نے اس منصوبے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس کے بعد لوگ سیکرٹری خزانہ ٹموتھی گائنر کی نقل اتارتے دکھائی دیتے ہیں۔
تجزیہ کار رالف نادر کا کہنا ہے کہ اس تحریک کا کوئی سیاسی اثر ابھی تک نظر نہیں آیا۔
اس تحریک میں شامل لوگ روایتی سیاسی دھارے سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، جس کے بارے میں انکا خیال ہے کہ وہ تبدیلی نہیں لا سکتا ۔ وہ براہ راست لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ معاشی تجزیہ کار کیرن کونر کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی روش کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ اہم اخبارات اس تحریک کے پیغام کو سمجھ رہے ہین اور اسے اپنے اخبارات میں فرنٹ پیجز پر جگہ دے رہے ہیں۔
کچھ سیاسی تجزیہ کارں کا کہنا ہے کہ آکیوپائی تحریک کا پیغام ٹی پارٹی کے اس پیغام پر بازی لے رہا ہے کہ بڑی حکومت ملک کو دیوالیہ کر رہی ہے۔ جان کا ناوا پالیسی سٹیڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ان کا کہناہے کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، حالات خراب ہو رہے ہیں جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے تشویش کی بات ہے۔
جان حال ہی میں امریکہ کے ایک بڑے بینک کی طرف سے ڈیبٹ کارڈ پر فیس عائد کرنے کے فیصلے کی بات کرتے ہیں۔ جس پر لوگوں کی طرف سے بھر پور احتجاج کے بعد بینکوں کو یہ فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔
جبکہ دوسری طرف لوگ بھرپور تیاری سے احتجاج کے لئے تیار ہیں۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے دفاتر کا گھیراو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جبکہ آنے والے موسم بہار میں ان کا ارادہ ہے کہ وہ امریکہ کے سیاسی دھارے میں شامل ہوئے بغیر سیاست دانوں پر اس احتجاج کے ذریعے دباؤبرقرار رکھیں۔