امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ریاستِ مزوری کے شہر، فرگوسن میں مائیکل براؤن کی ’المناک موت‘کے واقعے کے بعد امریکہ میں واضح طور پر، مختلف رنگ و طبیعت کی مالک مختلف برادریوں میں مایوسی کا ایک عنصر دیکھا گیا۔۔۔ جس کا تعلق قانون کے غیریکساں اطلاق کے واقعات کی فکرمندی کا معاملہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ موسم گرما کے دوران جب ایک سفید فام پولیس اہل کار نے ایک غیر مسلح سیاہ فام نوجوان، براؤن پر گولی چلائی تو اِس زیادتی پر فرگوسن سے دور تک اثرات نمایاں تھے۔ فرگوسن، نیویارک، کلیولینڈ، بالٹیمور اور دیگر شہروں میں افریقی امریکیوں کی قابل اعتراض ہلاکتوں کے نتیجے میں تحریک میں تیزی آئی، جس کی ابتدا سنہ 2012میں اُس وقت ہوئی جب فلوریڈا میں ٹریورن مارٹن کی موت واقع ہوئی، جس کا نعرہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ تھا۔
قومی سطح پر، باقی نسلوں کے مقابلے میں، افریقی امریکیوں کی گرفتاری کی شرح زیادہ ہے۔ یہ بات اخبار ’دِی یو ایس اے ٹوڈے‘ نے گذشتہ برس کے ایف بی آئی کے ایک تجزئے کی بنیاد پر بتائی ہے۔
مسٹر اوباما نے سنیچر کے روز اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا کہ مبینہ امتیاز کے معاملے سے ’ڈٹ کر‘ نبردآزما ہونے کی غرض سے اُنھوں نے ’کمیونٹی پولیسنگ‘ کی ٹاسک فورس کا اجلاس بلایا ہے، جو پولیس اہل کار، سرگرم کارکن اور تعلیم دانوں مشتمل ہے، تاکہ ایسے قابل عمل اقدامات لیے جائیں تاکہ برادریوں اور پولیس کے مابین اعتماد سازی اور تعاون کو فروغ ملے‘۔
مئی میں ٹاسک فورس نے 59 سفارشات پیش کی گئی تھیں اور ملک بھر کی برادریاں اس وقت اِن سفارشات پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ ’اِن مشوروں میں ہر چیز موجود ہے، یعنی اعداد و شمار اور ٹیکنالوجی، پولیس اہل کاروں کی تربیت، اور پھر قانون کے نفاذ کرنے والوں کا اسکولوں میں جا کر رابطہ کرنا۔۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’امریکہ کو سچے دل سے نسل، غربت اور طبقے سے متعلق معاملات پر بات چیت کرتے رہنا چاہیئے کہ بہت سی برادریوں کو الگ تھلگ اور اکیلے رہ جانے کا احساس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر امریکی کو یہ موقع ملنا چاہیئے کہ وہ مل کر کام کرے، جس میں ’زپ کوڈ‘ اور نسل کا عنصر حائل نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ بالآخر ہمیشہ سے امریکہ کا یہی عہد رہا ہے‘۔