امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا کہ نسل پرستی ایک بدنما داغ ہے جس کے تدارک کے لیے کام کرنا ہو گا۔
سان فرانسیسکو میں ایک تقریب سے خطاب میں اُنھوں نے یہ بات جنوبی کیرولائینا میں ایک چرچ پر سفید فام نوجوان کی طرف سے حملے کے تناظر میں کہی۔
’’(نوجوان) کی طرف سے فائرنگ کی بظاہر وجہ ہمیں یہ یاد کرواتی ہے کہ نسل پرستی بدستور ایک بدنما داغ ہے جس کے خلاف ہمیں مل کر لڑنا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمیں کسی مرحلے پر، بطور قوم، یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ محض ہمدردی کا اظہار کافی نہیں ہے۔‘‘
صدر اوباما نے اس موقع پر اسلحہ ’’گنز‘ پر مزید پابندی کے مطالبے کو دہرایا۔ اُنھوں ایسے حملوں کا بھی ذکر کیا جن میں لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ۔
رواں ہفتے ہی امریکہ کی ریاست جنوبی کیرولائنا میں ایک تاریخی چرچ پر حملے میں نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حملہ میں ملوث ملزم ڈیلن اسٹارم روف کے ایک سابق دوست نے کہا ہے کہ وہ کھلم کھلا نسل پرست بن چکا تھا۔
ڈیلن اسٹارم روف کے دوست کے بقول ایک دن شراب پینے کے بعد روف نے کہا کہ ’’سیاہ فام لوگ دنیا پر قبضہ کر رہے ہیں‘‘ اور کسی کو ’’سفید فام نسل کے لیے اس کے بارے میں کچھ کرنا ہو گا۔‘
21 سالہ ڈیلن اسٹارم روف اب حکام کی تحویل میں ہے۔ حملے کا نشانہ بننے والا 'ایمانوئل افریقن میتھوڈسٹ چرچ' جنوبی کیرولائنا کے شہر چارلسٹن میں واقع ہے اور اس کا شمار جنوبی امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کے قدیم ترین اور معروف گرجا گھروں میں ہوتا ہے۔
اُدھر چرچ پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے ’معاف‘ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی کیرولائینا میں چرچ پر حملے کے دوران ہلاک ہونے والی 70 سالہ خاتون کی بیٹی نے کمرہ عدالت میں ڈیلن اسٹارم روف سے کہا کہ ’’تم نے ایک بہت قیمتی چیز مجھ سے چھین لی ہے، میں اب اُسے کبھی اپنی (بانہوں) میں نہیں بھر سکوں گی۔‘‘
اُس خاتون نے درد سے بھری آواز میں کہا ’’لیکن خدا تمہیں معاف کرے، میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘
چرچ پر فائرنگ سے چھ خواتین اور تین مرد ہلاک ہوئے جب کہ تین افراد زخمی بھی ہوئے۔