امریکہ کے صدر براک اوباما ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے سے متعلق بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ایک تفصیلی نیوز کانفرنس کرنے جا رہے ہیں جس میں وہ اس معاہدے کی افادیت کو اجاگر کریں گے۔
کانگریس میں بہت سے ریپبلکن اور بعض ڈیموکریٹس کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو معاہدے سے متعلق صدر اوباما کے ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سمجھوتے سے ایران کی جوہری ہتھیاروں تک رسائی کا راستہ ختم ہو گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اوباما کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے یہ بنیادی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں ناقدین بھی اتفاق کرتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہیئں۔
"ہمارے پاس یہی بہترین راستہ ہے کہ نہ صرف آئندہ دس سالوں کے لیے بلکہ اس کے بعد کے سالوں میں بھی، معائنے کا ایسا مصدقہ نظام (وضع کیا جائے) جو اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر رہا۔"
ان کے بقول یہ "امریکہ کی قومی سلامتی، اسرائیل کی قومی سلامتی اور خطے میں ہمارے دیگر اتحادیوں کی سلامتی کے ضمن میں ایک بہت اہم کامیابی ہے۔ یہ (معاہدہ) خطے میں جوہری ہتھیاروں کی ممکنہ دوڑ کو بھی روکتا ہے۔"
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اب کے بعد آئندہ دس یا 15 سالوں میں جو بھی صدر ہو گا اس کے پاس یہ اختیار موجود رہے گا وہ فوجی اقدام یا نئی پابندیاں عائد کر سکے، لیکن ان کے بقول اس معاہدے سے ایران کے جوہری پروگرام پر زیادہ گہری نظر رکھے جا سکے گی۔
انھوں نے اس موقع پر اسرائیل اور خلیجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت کا تذکرہ بھی کیا تاکہ ایسے کسی ممکنہ اقدام پر بھی نظر رکھے جائے کہ ایران پر پابندیاں ختم ہونے سے حاصل ہونے والے سرمائے کو وہ دہشت گردی کی معاونت کے لیے استعمال نہ کر سکے۔