امریکہ کے صدر براک اوباما نے جسٹس انتونین اسکالیا کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر وفاقی اپیلٹ کورٹ کے جج میرک گارلینڈ کو امریکی عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کردیاہے۔
بدھ کو وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے میرک گارلینڈ کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں "امریکہ کے چند ذہین ترین قانون دانوں میں سے ایک" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں ہی میرک گارلینڈ کی بطور جج عمدہ کارکردگی کے معترف ہیں اور قانون کی بالادستی کے لیے ان کا عزم اور اپنے پیشے سے ان کی وابستگی مسلم ہے۔
معتدل نظریات کے حامل میرک گارلینڈ کی عمر 63 برس ہے اور وہ اس وقت ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی کورٹ آف اپیلز کے چیف جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
میرک گارلینڈ کی موجودہ عہدے پر 1997ء میں کی جانے والی نامزدگی کے حق میں ووٹ دینے والوں میں ری پبلکن جماعت کے سات ایسے سینیٹرز بھی شامل تھے جو اب بھی امریکی سینیٹ کے رکن ہیں۔
میرک گارلینڈ کو امریکہ کی نو رکنی سپریم کورٹ کے جج انتونین اسکالیا کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کیا گیا ہے۔
جسٹس اسکالیا 13 فروری کو اس وقت اچانک انتقال کرگئے تھے جب وہ امریکی ریاست ٹیکساس میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔
ان کے اچانک انتقال کے بعد امریکہ کے سیاسی حلقوں میں ان کے جانشین کے معاملے پر گرما گرم بحث چھڑ گئی تھی اور ری پبلکن رہنماؤں نے صدر براک اوباما سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کی خالی ہونے والی نشست پر نامزدگی 2017ء میں برسرِ اقتدار آنے والے نئے امریکی صدر پر چھوڑ دیں۔
امریکی آئین اور پارلیمانی روایات کی رو سے سپریم کورٹ کے جج کی خالی ہونے والی نشست پر نامزدگی کا اختیار صدرِ امریکہ کو حاصل ہے۔
صدر کے نامزد کردہ امیدوار کو بعد ازاں سینیٹ کی عدالتی کمیٹی کے روبرو کئی سماعتوں سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کمیٹی کے ارکان سوال و جواب کی صورت میں نامزد امیدوار کی اہلیت کی جانچ پڑتا ل کرتے ہیں اور اس بارے میں دیگر حکام اور متعلقہ افراد کے بیانات بھی قلم بند کرتے ہیں۔
تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد سینیٹ کی کمیٹی اکثریتِ رائے کی بنیاد پر صدر کے نامزد امیدوار کو مسترد کرنے یا اسے امریکی سینیٹ کو بھجوانے کی مجاز ہے جہاں امریکی سینیٹرز رائے دہی کے ذریعے امیدوار کی نامزدگی کی توثیق کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ امریکہ کا اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ ہے جس کے نو ارکان کی رائے تمام قانونی اور آئینی معاملات میں حتمی ہوتی ہے۔ امریکی آئین میں سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کی معیاد متعین نہیں لیکن روایات کے مطابق عدالتِ عظمیٰ کے جج تاحیات اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔
اس وقت امریکی سینیٹ میں ری پبلکنز کو اکثریت حاصل ہے جنہیں خدشہ تھا کہ ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والے صدر براک اوباما لبرل خیالات رکھنے والے کسی شخص کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کرسکتے ہیں جس سے عدالت کا موجودہ توازن بگڑ جائے گا جس میں قدامت پسند ججوں کو اکثریت حاصل ہے۔
ری پبلکن رہنماؤں کو امید ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن امیدوار کو فتح حاصل ہوگی جو ری پبلکن نظریات کے قریب سمجھے جانے والے کسی شخص کو عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کرسکے گا۔
لیکن صدر براک اوباما نے جسٹس اسکالیا کے انتقال کے بعد عدالت کی خالی نشست پر نامزدگی نہ کرنے کا ری پبلکنز کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔
صدر اوباما نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی خالی ہونے والی نشست پر فوراً نامزدگی کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے جسے موخر کرنے کی کوئی مناسب وجہ دستیاب نہیں۔
بدھ کو میرک گارلینڈ کی نامزدگی کے اعلان سے قبل وہائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں صدر اوباما نے کہا تھاکہ وہ ایسے شخص کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کرنے والے ہیں جو ان کے خیال میں امریکہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھنے کا سب سے زیادہ اہل ہے۔
بیان میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی خالی نشست پر نامزدگی کرتے ہوئے تین خصوصیات کو مدِ نظر رکھا ہے جن میں امیدوار کا آزاد ذہن اور بے داغ ریکارڈ کا حامل ہونا اور قانون پر مکمل گرفت ہونا شامل ہیں۔