واشنگٹن —
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما نے اپنی روسی ہم منصب، ولادیمیر پیوٹن کو بتایا ہے کہ یوکرین میں روس کے اقدامات، یوکرین کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی یکجہتی کی خلاف ورزی ہیں۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے جمعرات کے روز ٹیلی فون پر ایک گھنٹے تک گفتگو کی۔
ہفتے کے روز سے یہ اُن کا پہلا براہِ راست رابطہ خیال کیا جا رہا ہے، جب سے روسی افواج نے یوکرین میں جزیرہ نما کرئمیا کا کنٹرول سنبھالا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما نے روسی رہنما کو بتایا کہ اب بھی تنازع کو سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس کے لیے، روسی افواج کو کرئمیا کے اپنے اڈے کی طرف واپس جانا ہوگا؛ یوکرین اور روسی حکومتیں آپس میں براہِ راست بات چیت کر سکتی ہیں؛ اور بین الاقوامی مبصرین کو رسائی ہوگی تاکہ یوکرین میں روسی نسل کے افراد کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس سے قبل، دِن کے دوران، مسٹر اوباما نے کہا کہ روسی نواز قانون سازوں کی طرف سے یوکرین کے جزیرہ نما کرئمیا کے مستقبل کے بارے میں 16 مارچ کو کرایا جانے والا ریفرینڈم ، درحقیقت بین الاقوامی قانون اور یوکرین کے آئین کی سریحاً خلاف ورزی ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے جمعرات کے روز ٹیلی فون پر ایک گھنٹے تک گفتگو کی۔
ہفتے کے روز سے یہ اُن کا پہلا براہِ راست رابطہ خیال کیا جا رہا ہے، جب سے روسی افواج نے یوکرین میں جزیرہ نما کرئمیا کا کنٹرول سنبھالا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما نے روسی رہنما کو بتایا کہ اب بھی تنازع کو سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس کے لیے، روسی افواج کو کرئمیا کے اپنے اڈے کی طرف واپس جانا ہوگا؛ یوکرین اور روسی حکومتیں آپس میں براہِ راست بات چیت کر سکتی ہیں؛ اور بین الاقوامی مبصرین کو رسائی ہوگی تاکہ یوکرین میں روسی نسل کے افراد کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس سے قبل، دِن کے دوران، مسٹر اوباما نے کہا کہ روسی نواز قانون سازوں کی طرف سے یوکرین کے جزیرہ نما کرئمیا کے مستقبل کے بارے میں 16 مارچ کو کرایا جانے والا ریفرینڈم ، درحقیقت بین الاقوامی قانون اور یوکرین کے آئین کی سریحاً خلاف ورزی ہے۔