مسٹراوباما نے بھارتی اورامریکی بزنس انٹرپرینورزسےملاقات کی۔ اُنھوں نےاُن امریکی اگزیکٹیوز کےساتھ گفتگو میں بھی شرکت کی جو غیر ملکی کاروباری حضرات کے وسیع ترین مشن کےحصے کے طور پروہاں موجود ہیں۔
امریکہ اور بھارت کی بزنس کونسل کی جانب سے منعقدہ ایک کاروباری کانفرنس میں صدر نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو اکیسویں صدی کے نمائندہ تعلقات قرار دیا۔
اُن کے الفاظ میں: ‘امریکہ ایشیا، بالخصوص بھارت، کو مستقبل کی مارکیٹ تصور کرتا ہے۔ ہم آپ کے ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت میں عروج کا نہ صرف خیر مقدم کرتے ہیں بلکہ ہم اِس کی پُرجوش حمایت بھی کرتے ہیں۔’
تقریباً اُسی وقت وائٹ ہاؤس نے 15ارب ڈالرکے تجارتی معاہدوں کی ایک فہرست جاری کہ جِن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ یا تو مکمل ہوچکے ہیں یا تکمیل کے مراحل میں ہیں اور وائٹ ہاؤس کے مطابق، اِن سے امریکہ میں 53000سے زائد ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
فہرست میں جنرل الیکٹرک کے ساتھ بھی ایک معاہدہ شامل ہے جِس کے ذریعے بھارت میں توانائی پیدا کرنے کے لیے گیس اور بھاپ سے چلنے والی ٹربائنز مہیا کی جائیں گی۔ اگرچہ، یہ مشکل اقدام تھا تاہم صدر اوباما نے بھارت سے درآمدات کے لیے امریکی کنٹرولس میں نرمی کا اعلان کیا اور کہا کہ واشنگٹن جوہری عدم پھیلاؤ کے چار کثیر الجہت گروپوں میں بھارت کی مکمل رکنیت کی حمایت کرے گا۔
بین الاقوامی اقتصادی امور کے لیے قومی سلامتی کے نائب مشیر مائیک فورمین نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بھارت تمام چار گروپوں کی شرائط قبول کرنے کو تیار ہوگیا ہے۔بھارت کی چار خلائی اور دفاعی تنظیموں کو امریکہ کی اِس فہرست سے خارج کردیا جائے گا جو اُن گروپوں کی ہے جِن پر پابندی عائد ہے۔
اِس سے قبل، صدر اورباما اور اُن کی اہلیہ مشیل نے 26نومبر 2008ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے 166افراد کی سنگ ِ مرمر سے بنی ہوئی یادگار کا دورہ کیا اور وہاں مہمانوں کی کتاب پر دستخط کیے۔
تاریخی ‘گیٹ وے آف انڈیا’ کے سامنے ہوٹل کی چھت پر مسٹر اوباما نے کہا کہ تاج محل اور یہاں ہلاک ہونے والے افراد بھارتی عوام کی طاقت اور عزم کی علامت بن گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے اِس دورے کو ایک واضح پیغام سمجھنا چاہئیے۔ اُن کے الفاظ میں: ‘ہم نے یہاں کا دورہ ایک انتہائی واضح پیغام بھیجنے کے لیے کیا ہے۔ یعنی، یہ کہ اپنے عوام کو سلامتی اور خوشحالی پر مبنی ایک مستقبل دینے کے عزم میں امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔’
ہفتے کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، امریکی ایگزیکٹوز کے ایک گروپ نے کہا کہ اُنھیں امید ہے کہ صدر کا دورہ بھارتی منڈیوں کو امریکی کاروباروں کے لیے مزید کھول دے گا۔
‘ہَنی ویل انکارپوریٹڈ’ کے چیرمین اور سی اِی او، اُن افراد میں شامل تھے جنھوں نے نامہ نگاروں کے اِس سوال کا جواب دیا کہ بھارت میں امریکی فروخت میں اضافہ کس طرح امریکہ میں روزگار تشکیل دے گا۔اُنھوں نے کہا کہ اقتصادیات کوئی ‘زیروسم گیم نہیں ہے۔ لہٰذا، آخرِ کار، ہم ہر جگہ مزید اضافہ کریں گے اور جب ایسا ہوتا ہے تو آپ روزگار کو فروغ دینا بھی شروع کرتے ہیں۔’
ممبئی اور نئی دہلی میں سخت سکیورٹی نافذ کی گئی ہے۔
صدر اوباما اتوار کو نئی دہلی جائیں گے۔ اپنے اِس دورے میں صدر اوباما انڈونیشیا کا دورہ بھی کریں گے اور جنوبی کوریا اور جاپان میںG-20اور APECکے سربراہی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔
رپورٹ کی آڈیو سنیئے: