واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کو ٹیلی فون کرکے مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق منگل کو ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے مجوزہ معاہدے کے علاوہ افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات اور ملک میں جاری مفاہمتی عمل پر بھی گفتگو کی۔
بیان کے مطابق صدر اوباما نے اپنے افغان ہم منصب کو بتایا کہ چوں کہ وہ معاہدے پر دستخط نہ کرنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں لہذا امریکہ نے دیگر متبادل منصوبوں پر غور شروع کردیا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن – دسمبر 2014ء – کے بعد بھی لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی وہاں تعینات رہ سکیں گے جو افغانستان کی مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے علاوہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں میں معاونت بھی کریں گے۔
امریکہ خبردار کرچکا ہے کہ اگر صدر کرزئی نے فوراً اس معاہدے پر دستخط نہ کیے تو وہ اپنے تمام فوجی دستے رواں سال کے اختتام تک افغانستان سے واپس بلالے گا۔
تاہم افغان پارلیمان اور قبائلی رہنماؤں کی جانب سے معاہدے کی حمایت کے باوجود صدر کرزئی اس پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں اور انہوں نے مجوزہ معاہدے پر دستخط کا فیصلہ افغانستان کے نئے صدر پر چھوڑ دیا ہے جو اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد ان کی جگہ سنبھالے گا۔
منگل کو 'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے 'پینٹاگون' کو ضروری منصوبہ بندی کی ہدایت کردی ہے تاکہ مجوزہ سکیورٹی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہ طریقِ احسن انجام دیا جاسکے۔
تاہم، بیان کے مطابق، صدر اوباما نے اپنے افغان ہم منصب پر واضح کیا کہ ان کی انتطامیہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان کی جانب سے مجوزہ معاہدے کی منظوری کی منتظر رہے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ معاہدہ جتنی تاخیر کا شکار ہوگا امریکہ کے لیے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا اور معاہدے میں تاخیر 2014ء کے بعد افغانستان میں تعینات رہنے والے فوجیوں کی تعداد پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران صدر اوباما نے اپریل میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخاب کے شفاف اور پرامن انعقاد کے لیے صدر کرزئی کو امریکی تعاون کا یقین دلایا۔
افغان صدر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے واضح کیا کہ ان کا ملک صدارتی انتخاب میں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا کیوں کہ، ان کے بقول، افغانستان کے نئے قائد کے انتخاب کا حق صرف افغان عوام کو حاصل ہے۔
بیان کے مطابق صدر کرزئی نے اپنے امریکی ہم منصب کو افغانستان میں جاری قیامِ امن اور مفاہمت کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ خطے کے ممالک کی جانب سے افغانستان میں جاری تصادم کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کی حمایت ناگزیر ہے۔
مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد حالیہ مہینوں میں امریکی اور افغان صدور کے درمیان براہِ راست رابطوں میں خاصی کمی آئی ہے ۔
'وہائٹ ہاؤس' سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق منگل کو ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے مجوزہ معاہدے کے علاوہ افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات اور ملک میں جاری مفاہمتی عمل پر بھی گفتگو کی۔
بیان کے مطابق صدر اوباما نے اپنے افغان ہم منصب کو بتایا کہ چوں کہ وہ معاہدے پر دستخط نہ کرنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں لہذا امریکہ نے دیگر متبادل منصوبوں پر غور شروع کردیا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن – دسمبر 2014ء – کے بعد بھی لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی وہاں تعینات رہ سکیں گے جو افغانستان کی مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے علاوہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں میں معاونت بھی کریں گے۔
امریکہ خبردار کرچکا ہے کہ اگر صدر کرزئی نے فوراً اس معاہدے پر دستخط نہ کیے تو وہ اپنے تمام فوجی دستے رواں سال کے اختتام تک افغانستان سے واپس بلالے گا۔
تاہم افغان پارلیمان اور قبائلی رہنماؤں کی جانب سے معاہدے کی حمایت کے باوجود صدر کرزئی اس پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں اور انہوں نے مجوزہ معاہدے پر دستخط کا فیصلہ افغانستان کے نئے صدر پر چھوڑ دیا ہے جو اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد ان کی جگہ سنبھالے گا۔
منگل کو 'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے 'پینٹاگون' کو ضروری منصوبہ بندی کی ہدایت کردی ہے تاکہ مجوزہ سکیورٹی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہ طریقِ احسن انجام دیا جاسکے۔
تاہم، بیان کے مطابق، صدر اوباما نے اپنے افغان ہم منصب پر واضح کیا کہ ان کی انتطامیہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان کی جانب سے مجوزہ معاہدے کی منظوری کی منتظر رہے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ معاہدہ جتنی تاخیر کا شکار ہوگا امریکہ کے لیے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا اور معاہدے میں تاخیر 2014ء کے بعد افغانستان میں تعینات رہنے والے فوجیوں کی تعداد پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران صدر اوباما نے اپریل میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخاب کے شفاف اور پرامن انعقاد کے لیے صدر کرزئی کو امریکی تعاون کا یقین دلایا۔
افغان صدر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے واضح کیا کہ ان کا ملک صدارتی انتخاب میں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا کیوں کہ، ان کے بقول، افغانستان کے نئے قائد کے انتخاب کا حق صرف افغان عوام کو حاصل ہے۔
بیان کے مطابق صدر کرزئی نے اپنے امریکی ہم منصب کو افغانستان میں جاری قیامِ امن اور مفاہمت کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ خطے کے ممالک کی جانب سے افغانستان میں جاری تصادم کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کی حمایت ناگزیر ہے۔
مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد حالیہ مہینوں میں امریکی اور افغان صدور کے درمیان براہِ راست رابطوں میں خاصی کمی آئی ہے ۔