واشنگٹن —
امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔
اخبار کی ویب سائٹ پر پیر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے ساتھ جاری مذاکرات سے "انتہائی مایوس" ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث انہوں نے 'زیرو آپشن' پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔
امریکہ کے دفاعی حکام افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کی طے شدہ ڈیڈلائن – دسمبر 2014ء – تک وہاں موجود تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کو 'زیرو آپشن' کا نام دیتے ہیں لیکن ماضی میں اس آپشن کو امریکی حکام آخری ترجیح قرار دیتے رہے ہیں۔
اخبار نے یہ رپورٹ بعض امریکی اور یورپی عہدیداران کے حوالے سے شائع کی ہے جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ خیال رہے کہ امریکی حکام اس سے قبل بھی افغانستان سے اپنے تمام فوجی واپس بلانے پر غور کرنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹائمز کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض امریکی عہدیداران نے ایجنسی کو بتایا ہے کہ قومی سلامتی پر 'وہائٹ ہائوس' کے نائب مشیر بین رہوڈز نے رواں سال جنوری میں یہ عندیہ دیا تھا کہ امریکہ 2014ء کی ڈیڈلائن تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کی مکمل واپسی پر غور کرسکتا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بین رہوڈز کی جانب سے پیش کیا جانے والے 'زیرو آپشن' اب بھی برقرار ہے۔
'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر اوباما اور صدر کرزئی کے تعلقات میں "بتدریج بگاڑ" آتا جارہا ہے اور گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کی امریکی کوشش اور اس پر افغان حکومت کے ردِ عمل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خرابی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ باہمی کشیدگی کو دور کرنے کے لیے 27 جون کو دونوں صدور نے 'ویڈیو کانفرنس' کے ذریعے جو گفتگو کی تھی اس سے بھی باہمی تلخی میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ صدر کرزئی امریکہ پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ طالبان اور ان کے پاکستانی حامیوں کے ساتھ ایک علیحدہ امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں، ان کے بقول، "افغان حکومت اپنے دشمنوں کے رحم و کرم پر آجائے گی"۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں صدور کے درمیان 'ویڈیو کانفرنس' کے بے نتیجہ رہنے کے بعد سے امریکی حکام 'زیرو آپشن' کو "آخری حربے" کے بجائے "ایک متبادل" کے طور پر لے رہے ہیں۔
لیکن افغان حکومت کے ایک عہدیدار نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔
'نیویارک ٹائمز' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام نے تاحال افغانستان سے فوجیوں کے انخلا اور ڈیڈلائن کے بعد پیچھے رہ جانے والے فوجیوں کی مجوزہ تعداد کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
اخبار کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ ایک طویل المدت سیکیورٹی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے مذاکرات کیے جارہے ہیں لیکن فریقین کے "سخت موقف" کے باعث امریکہ عراق کی طرح افغانستان سے بھی اپنے تمام فوجی واپس بلانے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
اخبار کی ویب سائٹ پر پیر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی کے ساتھ جاری مذاکرات سے "انتہائی مایوس" ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث انہوں نے 'زیرو آپشن' پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔
امریکہ کے دفاعی حکام افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کی طے شدہ ڈیڈلائن – دسمبر 2014ء – تک وہاں موجود تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کو 'زیرو آپشن' کا نام دیتے ہیں لیکن ماضی میں اس آپشن کو امریکی حکام آخری ترجیح قرار دیتے رہے ہیں۔
اخبار نے یہ رپورٹ بعض امریکی اور یورپی عہدیداران کے حوالے سے شائع کی ہے جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ خیال رہے کہ امریکی حکام اس سے قبل بھی افغانستان سے اپنے تمام فوجی واپس بلانے پر غور کرنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹائمز کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض امریکی عہدیداران نے ایجنسی کو بتایا ہے کہ قومی سلامتی پر 'وہائٹ ہائوس' کے نائب مشیر بین رہوڈز نے رواں سال جنوری میں یہ عندیہ دیا تھا کہ امریکہ 2014ء کی ڈیڈلائن تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کی مکمل واپسی پر غور کرسکتا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بین رہوڈز کی جانب سے پیش کیا جانے والے 'زیرو آپشن' اب بھی برقرار ہے۔
'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر اوباما اور صدر کرزئی کے تعلقات میں "بتدریج بگاڑ" آتا جارہا ہے اور گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کی امریکی کوشش اور اس پر افغان حکومت کے ردِ عمل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خرابی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ باہمی کشیدگی کو دور کرنے کے لیے 27 جون کو دونوں صدور نے 'ویڈیو کانفرنس' کے ذریعے جو گفتگو کی تھی اس سے بھی باہمی تلخی میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ صدر کرزئی امریکہ پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ طالبان اور ان کے پاکستانی حامیوں کے ساتھ ایک علیحدہ امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں، ان کے بقول، "افغان حکومت اپنے دشمنوں کے رحم و کرم پر آجائے گی"۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں صدور کے درمیان 'ویڈیو کانفرنس' کے بے نتیجہ رہنے کے بعد سے امریکی حکام 'زیرو آپشن' کو "آخری حربے" کے بجائے "ایک متبادل" کے طور پر لے رہے ہیں۔
لیکن افغان حکومت کے ایک عہدیدار نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔
'نیویارک ٹائمز' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام نے تاحال افغانستان سے فوجیوں کے انخلا اور ڈیڈلائن کے بعد پیچھے رہ جانے والے فوجیوں کی مجوزہ تعداد کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
اخبار کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ ایک طویل المدت سیکیورٹی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے مذاکرات کیے جارہے ہیں لیکن فریقین کے "سخت موقف" کے باعث امریکہ عراق کی طرح افغانستان سے بھی اپنے تمام فوجی واپس بلانے پر مجبور ہوسکتا ہے۔