رسائی کے لنکس

چار امریکیوں کو رہا کیا جائے، صدر اوباما کا ایران سے مطالبہ


پٹسبرگ میں تقریر کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ:’ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہمارے امریکی واپس نہیں آجاتے، جنھیں ایران نے غیرمنصفانہ طور پر اپنی قید میں رکھا ہوا ہے‘

امریکی صدر براک اوباما نےمنگل کو ایران میں قید تین امریکیوں کی رہائی اور چوتھے امریکی کی تلاش میں مدد دینے کا مطالبہ کیا، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران ہی میں ہیں۔

مسٹر اوباما نے یہ بات پٹِسبرگ میں، بیرون ملک جنگوں میں شریک سابقہ فوجیوں کے ایک کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

بقول صدر،’ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہمارے امریکی واپس نہیں آجاتے، جنھیں ایران نے غیرمنصفانہ طور پر اپنی قید میں رکھا ہوا ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ صحافی، جیسن رضائیاں کو رہا کیا جائے۔ پیسٹر سعید عابدینی کو رہا کیا جائے۔امریکی میرین کور کے سابق سارجنٹ، عامر حکمتی کو رہا کیا جائے۔ ایران کو چاہیئے کہ وہ رابرٹ لیونسن کی تلاش میں مدد دے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ امریکی اپنے ملک واپس آئیں اور اپنے اہل خانہ سے ملیں‘۔

اِن چار امریکیوں کے کچھ اہل خانہ، احباب اور واسطہ داروں نے مسٹر اوباما پر نکتہ چینی کی ہے کہ ابھی تک اُن کی رہائی حاصل نہیں کی گئی، جنھیں، بقول اُن کیے، پچھلے ہفتے ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے بین الاقوامی سمجھوتے کا حصہ ہونا چاہیئے تھا۔ طے ہونے والے سمجھوتے کا مقصد جوہری ہتھیار ترک کرنے کے عوض تباہ کُن اقتصادی تعزیرات نرم کرنا ہے، جو اقوام متحدہ اور مغربی ملکوں نے لگا رکھی ہیں۔

مسٹر اوباما نے برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں طے ہونے والے سمجھوتے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری قومی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے یہی ایک اچھا اور زیادہ ذمہ دارانہ طریقہ تھا‘۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کے روز متفقہ طور پر سمجھوتے کی توثیق کی۔ تاہممؤ، امریکی کانگریس میں مسٹر اوباما کے ریپبلیکن ناقدین نے اگلے 60 دِنوں تک سمجھوتے کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے مباحثے پر تیار بیٹھے ہیں، جس کے بعد اس کے حق یا مخالفت میں ووٹنگ ہوگی۔

صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ کانگریس کی جانب سے سمجھوتے کو مسترد کیے جانے کی صورت میں، وہ بل کو ویٹو کردیں گے، جس کے بعد ویٹو کا مقابلہ کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔

مسٹر اوباما نے ’ویٹرنز کے کنوینشن‘ کو بتایا کہ یہی وہ سیاست داں اور پنڈت ہیں جنھوں نےایران کے جوہری پروگرام پر سفارتی حل سامنے آنے کے امکان کو ہی مسترد کر دیا تھا، اور اِنھوں نے ہی عراق کے خلاف جنگی اقدام کے حق میں ووٹ دیا تھا، اور کہتے ہوئے کہ یہ محض چند مہینوں کی ہی تو بات ہے۔

تاہم، مسٹر اوباما نے تسلیم کیا کہ امریکہ کو اب بھی ایران کے ساتھ پیچیدہ محاذ آرائی کا سامنا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’اس سمجھوتے کے باوجود، ہمارے ایرانی حکومت کے ساتھ واضح اختلافات موجود رہیں گے،چونکہ ایران دہشت گردی کا حامی ہے اور دخل اندازی کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا ذمہ دار ہے‘۔
’دہشت گردی کی حمایت، اس کے بیلاسٹک میزائل پروگرام اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے باعث، ایران کے خلاف یہ تعزیرات باقی رہیں گی۔ اور ہم ایران کے خطرناک رویے کی مخالفت جاری رکھیں گے اور اپنے اتحادیوں، جن میں اسرائیل شامل ہے، اُن کا ساتھ دیتے رہیں گے‘۔

XS
SM
MD
LG