صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اس ماہ کے آخر میں وہ جاپان کے شہر ہیروشیما جائیں گے، اور یوں اس شہر کا دورہ کرنے والے وہ پہلے امریکی سربراہ ہوں گے، جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران سنہ 1945 میں امریکی لڑاکا طیاروں نے دنیا کا پہلا ایٹمی بم گرایا تھا۔
سات عشروں کے دوران، امریکی صدور نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے دورے سے احتراز کیا ہے۔ ناگاساکی پر تین روز کے بعد دوسرا ایٹمی بم گرایا گیا تھا۔ اس احتراز کا بظاہر سبب یہ رہا ہے کہ کہیں اسے ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پھیلنے والی تباہی پر معذرت سے تعبیر نہ کیا جائے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ 21 سے 28 مئی تک ویتنام اور جاپان کے دورے کے اختتام پر جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے کے ہمراہ اوباما ہیروشیما کا دورہ کریں گے۔
اوباما کے مشیر بین رہوڈز نے اس امکان کی تردید کی ہے کہ اوباما ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے جانے پر معذرت کریں گے۔
رہوڈز نے کہا کہ صدر ’’دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ایٹمی بم کے استعمال کے فیصلے کا ذکر نہیں کریں گے۔ بجائے اس کے، وہ جاپان کے ساتھ روشن خیال سوچ پیش کریں گے اور ہمارے مشترکہ مستقبل کی سوچ پر دھیان مرکوز رکھیں گے‘‘۔
ہوائی میں واقع پرل ہاربر کے امریکی بحریہ کے اڈے پر جاپان کی جانب سے غیر متوقع فضائی حملے کے تقریباً 75 برس بعد، اوباما یہ دورہ کرنے والے ہیں۔ جنگ کے بعد دونوں ملک مضبوط اتحادی بن کر سامنے آئے۔
اوباما دنیا کے سرکردہ صنعتی ملکوں کے ’جی 7‘ کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے جاپان کا دورہ کریں گے۔ وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ اوباما ہیروشیما کا دورہ کریں گے، تاکہ ’’وہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر دنیا میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے کے عزم کو اجاگر کر سکیں‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گذشتہ ماہ ہیروشیما کا دورہ کیا تھا، جہاں اُنھوں نے کہا تھا کہ یہ یادگار گراؤنڈ زیرو سے کچھ قدم ہی دور ہے، ’’یہ اس بات کی کھلی، تیکھی اور ہلا دینے والی یاددہانی کے مترادف ہے کہ ہمیں نہ صرف جوہری ہتھیاروں کے خطرے کو ختم کرنے کی ہماری ذمہ داری نبھانی ہے، بلکہ لڑائی سے احتراز کی کوششوں کے اعادہ کا عزم کرنا ہے‘‘۔