جاپان کے شہر ناگاساکی پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گرانے کے 69 سال مکمل ہوگئے ہیں جس کی مناسبت سے ہفتے کو جاپانی شہر میں مختلف تقاریب منعقد کی گئیں۔
ہفتے کو ہونے والی مرکزی تقریب شہر کے 'پیس پارک' میں ہوئی جس میں 1945ء کے ایٹمی حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد، مرنے والوں کے لواحقین اور اعلیٰ سرکاری حکام سمیت ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
تقریب میں جاپان میں امریکی سفیر کیرولین کینیڈی سمیت 51 ملکوں کے نمائندوں اور سفیروں نے بھی شرکت کی۔
تقریب کے شرکا نے صبح کے 11:02 منٹ پر 69 سال قبل کیے جانے والے حملے میں مرنے والوں کی یاد میں ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی۔
یہ ٹھیک وہی وقت ہے جب 9 اگست 1945ء کو امریکہ نے شہر پر ایٹم بم گرایا تھا۔ اس حملے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ناگاساکی پر حملے سے تین روز قبل امریکہ جاپان کے ایک دوسرے شہر ہیروشیما پر بھی ایٹمی حملہ کرچکا تھا جس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد مارے گئے تھے۔
امریکہ کا کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے جلد خاتمے کے لیے اس وقت جاپان پر یہ حملے کرنا ضروری تھے۔
ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کے چھ روز بعد جاپان کی افواج نے ہتھیار پھینک دیے تھے جس کے نتیجے میں دوسری جنگِ عظیم کاخاتمہ ہوگیا تھا۔
ناگاساکی کے 'پیس پارک' میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہر کے میئر ٹومی ہیسا تاؤ نے وزیرِاعظم شینزو ایبے کی حکومت پر زور دیا کہ وہ عوامی مطالبات پر کان دھریں اور جنگِ عظیم دوم کے بعد سے جاپان کی اختیار کردہ مسلح تنازعات میں نہ الجھنے کی پالیسی پر کاربند رہیں ۔
جاپان کی حکومت نے حال ہی میں اپنی فوج کو اتحادی ملکوں کی دفاعی کارروائیوں میں شرکت اور بیرونِ ملک زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے کی اجازت دینے کا عندیہ دیا ہے جس پر جاپان میں رائے عامہ خاصی تقسیم ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپان کی نصف سے زیادہ آبادی حکومت کے اس فیصلے کی مخالف ہے۔
جائزے کے مطابق جاپانی شہریوں کی جنگ اور مسلح تصادم سے گریز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کئی دہائی قبل ایٹمی حملوں کی صورت میں جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔