ایسے میں جب امریکی فوج لیبیا میں اپنا کردار بڑھا رہی ہے، صدر براک اوباما جمعرات کو اعلیٰ فوجی اور قومی سلامتی کے مشیروں کا اجلاس طلب کیا ہے، جس کا مقصد داعش کے خلاف لڑائی کو زیر غیر لانا ہے۔
اوباما پینٹاگان میں قومی سلامتی کونسل کے ارکان سے ملیں گے، ایسے میں جب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ قومی وحدت کی حکومت سے منسلک افواج کی مدد کے لیے، امریکہ سرطے میں دہشت گرد گروپ کے محفوظ ٹھکانے پر اور اس کے قرب و جوار میں مزید فضائی حملے کرنے والا ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان جیف ڈیوس نے منگل کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’محاذ جنگ کی خطوط طے کر لی گئی ہیں، اور ہم وہاں قومی وحدت پر مشتمل حکومت کی مدد کر رہے ہیں‘‘۔
عام طور پر صدر کونسل کے ارکان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھار وہ دیگر مقامات پر ملتے ہیں جیسا کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی اور محکمہٴ خارجہ۔ جمعرات کا اجلاس پینٹاگان میں منعقد کرنے سے اوباما داعش کو شکست دینے کے سلسلے میں انتظامیہ کی مربوط حکمتِ عملی کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
لیبیا میں فضائی کارروائی جسے ’آپریشن اوڈیسی لائٹننگ‘ کا نام دیا گیا ہے، اِس ہفتے شروع ہوئی؛ جس کا مقصد سرطے میں داعش کا قبضہ واگزار کرانے کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کی مدد کرنا ہے۔
پینٹاگان نے کہا ہے کہ یہ آپریشن مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں کے اندر مکمل ہوگا۔
قومی وحدت کی حکومت کی افواج نے کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد داعش سے بن غازی کے قریب خلیج صدرہ کے ساحلی علاقے سے طرابلس تک کا علاقہ واگزار کرالیا ہے۔
ڈیوس نے کہا ہے کہ قومی وحدت کی حکومت سے منسلک لڑاکوں کی مدد سے لیبیا میں داعش کا قبضہ خاصا واگزار کرا لیا گیا ہے، جس کا مرکز سرطے کا شہر رہا ہے۔
شہر کا قبضہ لینے کے لیے، قومی وحدت کی حکومت کے ساتھ منسلک افواج نے مقامی ساختہ دھماکہ خیز ہتھیار، چھوٹے دہانے والا اسلحہ اور گھات لگا کر نشانہ لینے کے واقعات کا مقابلہ کیا ہے۔
پینٹاگان نے اندازہ لگایا ہے کہ شہر میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد کو ہزاروں سے گھٹا کر اب 1000سے کم کر دیا گیا ہے۔
سنہ 2011 میں جب لیبیا کے مطلق العنان معمر قذافی کا تختہ الٹا گیا، داعش کے شدت پسندوں نے لیبیا کا رُخ کیا، جسے ابتدائی طور پر عراق اور شام میں مضبوط ٹھکانے حاصل تھے۔