انڈونیشیا کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد امریکی صدر براک اوباما بدھ کو جنوبی کوریا پہنچ گئے ہیں۔
امریکی صدر دارالحکومت سیول میں قدرِ مشکل لمحات کی توقع کر سکتے ہیں جہاں وہ جمعرات سے دنیا کی 19 دیگر بڑی اقتصادی طاقتوں کے رہنماؤں کے ساتھ دو روزہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
جی 20 تنظیم کے سربراہ اجلاس سے قبل ہونے والی بات چیت کے شرکاء نے بتایا ہے کہ اُن کے درمیان تجارت اور کرنسی کی شرح تبادلہ پر گرما گرم بحث ہوئی ہے، جب کہ متعدد ممالک کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کیے گئے حالیہ اقدامات اُن کو متاثر کریں گے۔
اس سے قبل دارالحکومت جکارتا میں مسٹر اوباما نے انڈونیشیا میں جمہوریت کی تعریف میں ایک اہم تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی رواداری اس کی روح ہے جو ملک کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور مسلم آبادی والے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا میں یہ قدر مشترک ہے کہ معاشرتی تنوع طاقت اور قوت کی بنیاد بنتاہے۔
مسٹر اوباما کا کہنا تھا کہ نا تو امریکہ اسلام سے صف آراء ہے اور نا ہی کبھی ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ دیگر دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد کو اسلام یا کسی اور مذہب کا رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
امریکی صدر نے بڑی رکاوٹوں کے باوجود مشرق وسطی میں قیام امن کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم کیا۔
ایک روز قبل انڈونیشیا کے صدر کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کو اعتماد سازی کے لیے اضافی اقدامات نا کرنے پر تنقید کی۔
امریکی صدر نے اسرائیل کی طرف سے متنازع مشرقی یروشلم میں 1,300 اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امن بات چیت کے دوران یہ عمل کبھی مددگار ثابت نہیں ہوتا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ”یروشلم بستی نہیں ہے۔ یہ مملکت اسرائیل کا دارلحکومت ہے۔“
امریکی محکمہ خارجہ اور اقوام متحدہ نے اسرائیل کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔فلسطینی مشرقی یروشلم کومستقبل میں اپنی آزاد ریاست کا دارالحکومت تصور کرتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ اسرائیل پر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے حوالے سے زور دے رہی ہے۔ اس معاملے سے متعلق تنازعات کے باعث مشرق وسطی امن مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔