صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور آسیان کے دس رکن ممالک مل کر نئے ’’علاقائی ضوابط کے فروغ کے لیے کام کر سکتے ہیں جس میں تمام اقوام کے لیے وہی قواعد ہوں گے۔‘‘
پیر کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر رینچو میراج میں آسیان سربراہ اجلاس کے افتتاح کے موقع پر اوباما نے کہا کہ آسیان جنوب مشرقی ایشیائی خطے کے امن و خوشحالی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
صدر اوباما کے بقول اس تاریخی دو روزہ اجلاس میں قائدین کی طرف سے ایسے رہنما اصول بنانے پر کام کرنے کی توقع ہے ’’جن میں عالمی قوانین اور اقدار، بشمول بحری آزادی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا اور جہاں تنازعات پرامن اور قانونی طریقوں سے حل کیے جائیں گے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ علاقے میں چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے اور امریکہ کی مستقبل کی خوشحالی کے لیے علاقے میں قائدانہ امریکی کردار اور اس کی سرگرمیاں نہایت اہم ہیں۔
آسیان سربراہ اجلاس میں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، برونائی، ویتنام، لاؤس، میانمار اور کمبوڈیا شامل ہیں۔ متحرک اور متنوع جنوب مشرقی ایشیائی خطے کو تیز ترقی اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ یہ دونوں عوامل عالمی معیشت اور سلامتی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
رینچو میراج میں امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا ’’دنیا کی سیاسی اور اقتصادی ترقی کا مرکز ہے‘‘ اور ’’امریکہ کا فطری حلیف ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے حکام کے مطابق امریکہ آسیان رہنماؤں کو ایک بہت واضح پیغام دے گا کہ وہ چین کی طرف سے علاقائی تنازعات میں فوجی مداخلت اور خطے میں کشیدگی کے اضافے کی مخالفت کرتا ہے۔
امریکہ اور آسیان رہنما شمالی کوریا کی طرف سے راکٹ کے تجربے اور پیانگ یانگ کو اپنے اشتعال انگیز اقدامات کو ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے چین کے کردار پر بھی بات چیت کریں گے۔
چین اور امریکہ شمالی کوریا پر اختلافات رکھتے ہیں مگر امریکہ کا خیال ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا دونوں کے مفاد میں ہے۔
امریکہ کے مطابق آسیان سے تعلق رکھنے والے دس ممالک ایشیا کی تیسری بڑی اور دنیا کی ساتویں بڑی معاشی طاقت ہیں جس کی مجموعی پیداوار 2.4 کھرب ڈالر ہے۔ ان ملکوں کی مجموعی آبادی میں سے 65 فیصد کی عمر 35 سال سے کم ہے۔
ان ممالک کی معاشی ترقی کا زیادہ تک انحصار کاروبار، ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل پر ہے۔ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ امریکہ اپنی معیشت اور عالمی معیشت میں جدت طرازی اور کاروباری صلاحیتوں کو مربوط کر کے ایسے ممالک کی مدد کر سکتا ہے۔