صدر براک اوباما نے عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی سے فون پر بات کی ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بغداد کے انتہائی سکیورٹی کے بین الاقوامی زون کی سلامتی کو بہتر کرنا "انتہائی اہم" ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق اوباما نے امریکی عوام کی طرف سے بغداد میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس گفتگو میں عراق کی سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ گفتگو مظاہرین کے طرف سے انتہائی سکیورٹی والے علاقے "گرین زون" پر دھاوا بولنے کے ایک دن کے بعد ہوئی جہاں پارلیمان اور کئی سرکاری تنصیبات واقع ہیں۔
حکومت مخالف مظاہرین جنہیں بعد میں اس علاقے سے باہر نکال دیا گیا تھا، نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دوبارہ مسلح ہوکر واپس آئیں گے۔
مظاہرین میں زیادہ تعداد شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی تھی جن کے پاس عراق کے دیگر رہنماؤں کی طرح اپنی ملیشیا ہے جو " امن بریگیڈز" کے نام سے جانی جاتی ہے۔
مقتدیٰ الصدر نے مظاہروں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ"حکومت کے خلاف لوگوں کی بغاوت ہے"۔
سکیورٹی فورسز نے ہفتے کو بین الاقوامی زون کے تمام داخلے راستوں کو بند کر دیا تھا اور شہر کی سڑکوں پر واقع چیک پوسٹوں پر خصوصی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔
بغداد کے کچھ شہریوں نے اس خدشے کے پیش نظر خوراک، پانی اور ادویہ کا ذخیرہ کر لیا ہے کہ صورت حال سنگین ہو سکتی ہے اور مظاہرین فساد اور لوٹ مار شروع کر سکتے ہیں۔
مقتدیٰ کا شمار عراق کے طاقتور قوم پرست اور مقبول رہنماؤں میں ہوتا ہے اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ان ہزاروں عراقیوں کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں جو حکومت کی مبینہ بدعنوانی اور اس کے رہنماؤں کی انہیں تشدد کی لہر سے محفوظ رکھنے میں ناکامی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے صورت حال کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔