نیویارک میں ایک ایسا پاکستانی گھرانہ بھی ہے کہ جہاں رہائش پذیر اسکول جانے والی تین نوعمر بچیاں اور ان کے والد، سب ہی صاحب کتاب ہیں۔
پاکستانی نژاد امریکی، ایاز صدیقی ’ریئل اسٹیٹ‘ ایجنٹ ہیں۔
اس سے قبل، پاکستان میں وہ ایک کالج میں لیکچرار کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران انھوں نے ’شاہ ولی اللہ اور معاشیات‘‘ کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب تصنیف کی تھی۔
پڑھنے لکھنے کے شوق نے اُن کے گھر کے ماحول کو مکمل علمی ماحول میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان کی نوعمر بچیاں 15 سالہ صدف ایاز، 10 سالہ ہدیٰ ایاز اور سات برس کی ملیحہ ایاز کے درمیان موضوع بحث کمپیوٹر پر کھیلے جانے والے ویڈیو گیم یا سوشل میڈیا نہیں۔ بلکہ، ان کے وہ خواب ہوتے ہیں جنھیں تحریر کی شکل دے کر، وہ صاحب کتاب بن چکی ہیں۔
اُن کی تحریر میں عزم ہے اور ماحول میں مثبت سوچوں کو فروغ دینے کی جدوجہد بھی۔
ہدیٰ ایاز نے اپنی پہلی کتاب ’ فریزلینڈ اے نیو بیگنیگ‘ اس وقت لکھی جب وہ اپنے اسکول کے چوتھے گریڈ میں تھی۔ خوبصورت ٹائٹل سے مزین اس کتاب کو شائع کیا ہے ’ارچ وے پبلیشر، نیویارک‘ نے۔ اس باصلاحیت بچی نے یہ کتاب محض تین ماہ کے عرصے میں لکھ ڈالی۔ کتاب میں مثبت اور منفی سوچوں کے درمیان کشمکش کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح منفی سوچ کے کس طرح پورے ماحول پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ساتھ ہی، اس میں، مثبت سوچوں کے فروغ کے لئے جدوجہد اور عزم کا اظہار بھی ہے۔
اسی مصنفہ نے اپنی دوسری کتاب اس وقت لکھی جب وہ پانچویں گریڈ میں تھی اور آج وہ جب چھٹے گریڈ میں زیر تعلیم ہیں، ان کی تیسری کتاب بھی طباعت کے مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔
ہدیٰ کی بڑی بہن صدف ایاز کی پہلی کتاب ’کراسنگ دی ریڈ لائیٹس‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ انھوں نے یہ کتاب اس وقت لکھی تھی جب وہ دسویں گریڈ میں تھیں اور ان دنوں وہ گریڈ گیارہ اور بارہ ایک ساتھ پڑھ رہی ہیں، تاکہ جلد گریجویشن مکمل کرلیں۔ اس کتاب میں صدف نے بتایا کہ اگر آپ کسی عظیم مقصد کے لئے عزم کرلیتے ہیں تو اس کام میں آنے والی رکاوٹیں آپ کی راہ نہیں روک پاتیں۔
فیکشن پر لکھی گئی اس کتاب میں انھوں نے ایک معصوم بچی کی جدوجہد کو پیش کیا ہے جو وہ اپنے مغوی والدین کی بازیابی کے لئے کرتی ہے۔ صدف ایاز کی عمر پندرہ برس ہے اور وہ اس برس ہائی اسکول گریجویشن مکمل کرلیں گی۔
اسی گھرانے کی سب سے چھوٹی بیٹی، ملیحہ ایاز ابھی پانچویں گریڈ میں ہیں اور ان کی بھی کتاب مکمل ہوچکی ہے اور ان دنوں پبلیکشن کے مراحل میں ہے، توقع ہے کہ اسی ماہ یہ کتاب بھی مارکیٹ میں آجائے گی۔
گھرانے کے سربراہ، ایاز صدیقی نے ’وائس اف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تحریر ان کا شوق ہے اور انھوں نے یہ شوق اپنے بچوں میں منتقل کردیا ہے۔ اب ان بچوں میں بحث و مباحثہ کا موضوع کوئی اور نہیں، بلکہ علمی نوعیت کی ہوتی ہے اور میں اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں، بلکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ میں خود ان بچوں سے سیکھتا ہوں۔