پاکستان میں کرونا وائرس پر تحقیق کرنے والے صحت کے ایک ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر صورتِ حال بدترین شکل اختیار کر گئی تو اس ماہ کے آخر میں ملک میں کیسز کی تعداد دو لاکھ جب کہ وبا سے چار ہزار اموات ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ رفتار ہی برقرار رہی تو بھی مئی کے آخر میں متاثرین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اندازے سے کم دکھائی دے رہی ہے۔
جناح سندھ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل کے مہینے میں پاکستان میں ہر ہفتے کیسز کی تعداد میں تقریبا 50 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
اسی اندازے سے اگر کیسز بڑھتے رہے تو مئی کے آخر میں یہ تعداد ایک لاکھ جب کہ 2000 افراد ممکنہ طور پر اس وبا سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی کے آخر تک ہر ہفتے چھ ہزار نئے مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کرنا پڑسکتا ہے جن میں سے 200 سے 250 افراد کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں اگر یہ صورتِ حال خراب ہو گئی تو ہر ہفتے دگنی تعداد میں مریض سامنے آئیں گے جس سے اموات چار ہزار جب کہ متاثرین کی تعداد دو لاکھ اور ہر ہفتے 20 ہزار نئے مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کرنا پڑسکتا ہے۔
ان میں سے 700 افراد کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوگی۔
'کرونا کنٹرول کرنے کا ابتدائی موقع گنوا دیا'
"پاکستان میں لاک ڈاؤن کی نرمی ناگزیر مگر ممکنہ طور تباہ کن" کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ کرنا نقصان دہ ثابت ہوا۔
رپورٹ کے مطابق تاخیر سے ہونے والا یہ لاک ڈاؤن بھی غیر موثر تھا جس سے کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ابتدائی مرحلے پر ہی لاک ڈاؤن پر اتفاق رائے ہو جاتا اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہوتا تو وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکتا تھا۔ تاہم پاکستان نے یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا۔
ماہرین نے کہا ہے کہ لگ بھگ دو مہینے تک برقرار رہنے والا لاک ڈاؤن ایک سنہری موقع تھا جس میں وبا سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملے طے کی جا سکتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تبدیلی آچکی ہے، اور کئی ممالک نے سماجی فاصلے کو اپنے روز مرہ معمولات کا حصہ بنانا شروع کردیا ہے۔
اس نئے عالمی منظر نامے میں ماسک پہننا اتنا ہی ضروری ہوچکا ہے جتنا کہ سیٹ بیلٹ باندھنا جبکہ فاصلے سے بات چیت کرنا ایسا ہی جیسا کہ سگنل پر رکنا ضروری ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ جو لوگ ان پابندیوں پر عمل نہ کریں انہیں اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے جرم میں سزا دینا ضروری ہے۔
رپورٹ میں وہ ممالک جہاں وبا پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان ممالک نے لاک ڈاؤن پر واضح فیصلہ کیا۔ اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا اور سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے اصولوں کو مدنظر رکھا جس کی وجہ سے وہ اس پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ لہذٰا وہاں اب کیسز کی تعداد میں کمی کے باعث لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کو برقرار رکھنے کے مضمرات یقیناً قابل فہم ہیں کیوں کہ لاک ڈاون معاشی طور پر غریب معیشتوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
ماہرین کے مطابق طویل دورانیے کا لاک ڈاؤن تعلیم یافتہ اور تنخواہ دار طبقے کے لیے تو کارآمد ہوسکتا ہے لیکن دیہاڑی دار طبقے اور چھوٹے کاروبار کو چلانے والوں کے لیے یہ تباہی ہے۔
'ساری ذمہ داری عوام پر ڈالنا خطرناک ہے'
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت کے بقول عوام کو خود اپنی حفاظت کی ذمہ داری اُٹھانا ہو گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ بحران میں حکومت کو نئی صورت حال سے عوام کو ہم آہنگ کرنے کے لیے نئے قوانین اور طرز زندگی سے متعلق قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یقیناً ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ معمول کی زندگی شروع کی جائے مگر کیا یہ سب کچھ بھلا دیا جائے کہ کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور کچھ بھی نہیں ہو گا؟
'خوش قسمتی سے کیسز اندازوں سے کم رہے'
رپورٹ مرتب کرنے والے طبی ماہرین کی ٹیم کی سربراہ اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ انصاری بیگ کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز بڑھنے کی تعداد اندازوں سے کم رہی ہے۔
اُن کے بقول ملک میں وبا بارہویں ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ اب بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔ لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ پاکستان میں وبا اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے یا نہیں۔
اُن کے بقول جن ملکوں میں کیسز تیزی سے بڑھے وہاں نویں ہفتے میں وبا کا عروج تھا۔
ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق ملک میں کرونا سے مرنے والوں کا تناسب سو میں دو افراد کاہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور ان کے خیال میں آنے والے ہفتوں میں اس شرح میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر لبنیٰ انصاری کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے اثرات پر کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس اعلان کے اثرات آئندہ دو سے تین ہفتوں میں سامنے آ سکیں گے، اور پھر معلوم ہوگا کہ ہمیں لاک ڈاؤن کھلنے کا نقصان زیادہ ہوا ہے یا فائدہ؟
ڈاکٹر لبنی کے بقول "اگر اگلے ہفتے کے آخر تک کیسز کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ پہنچ گئی اور مئی کے آخر میں یہ تعداد ایک لاکھ ،تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم پہلے احمقوں کی جنت میں رہ رہے تھے۔ جون کے پہلے ہفتے تک صورتِ حال اور زیادہ واضح ہوسکے گی۔ لیکن اس کے لیے ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 43 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ مہلک وائرس سے اب تک 939 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔