پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد ہزاروں افراد یہاں سے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں اور نقل مکانی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
رواں ہفتے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے کارروائی کی تھی جس میں کم ازکم 50 مشتبہ جنگجو ہلاک ہوگئے تھے جن میں عسکری حکام کے مطابق 36 غیر ملکی جنگجو تھے۔
شمالی وزیرستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو روپوش ہیں اور یہ عناصر ملک کے مختلف حصوں میں ہلاکت خیز حملے کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بنوں اور راولپنڈی میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے تعلق رکھنے والے احسان داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران تقریباً 13 ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
’’یہ لوگ کوہاٹ، ڈی آئی خان اور پشاور منتقل ہوئے ہیں اور دوسری طرف نہ تو پولیٹیکل انتظامیہ اور نہ ہی حکومت نے ان کو یہ کہا ہے کہ یہاں آپریشن ہو رہا ہے آپ یہاں سے جائیں۔ ابھی تک لاکھوں افراد شمالی وزیرستان میں موجود ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ شاید کوئی معاہدہ ہو جائے یا دونوں طرف سے فائربندی ہوجائے۔‘‘
تاحال سرکاری طور پر اس نقل مکانی یہ ان افراد کی دیکھ بھال سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
حکومتی عہدیدار شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی باقاعدہ کارروائی نہیں ہورہی تاہم ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والوں کو جواب ضرور دیا جائے گا۔
ادھر ایک اور قبائلی علاقے باجوڑ کے دو اہم قبائل سالارزئی اور ماموند زئی نے اپنے جرگوں میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔
سالارزئی قبیلے کے ایک رہنما ملک ناصر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جرگے میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کا کیا جائے گا۔
قبائلی جرگے نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ امن کمٹیوں کو فعال بنا کر پاک افغان سرحد کی نگرانی کا عمل بھی تیز کیا جائے۔
پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے چھ کی سرحدیں افغان سرحد سے ملتی ہیں اور مبصرین و ناقدین یہ کہتے آئے ہیں افغانستان کے ساتھ مشکل اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل طویل سرحد کی موثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے شدت پسند باآسانی سرحد کے آرپار نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔
رواں ہفتے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے کارروائی کی تھی جس میں کم ازکم 50 مشتبہ جنگجو ہلاک ہوگئے تھے جن میں عسکری حکام کے مطابق 36 غیر ملکی جنگجو تھے۔
شمالی وزیرستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو روپوش ہیں اور یہ عناصر ملک کے مختلف حصوں میں ہلاکت خیز حملے کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بنوں اور راولپنڈی میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے تعلق رکھنے والے احسان داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران تقریباً 13 ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
’’یہ لوگ کوہاٹ، ڈی آئی خان اور پشاور منتقل ہوئے ہیں اور دوسری طرف نہ تو پولیٹیکل انتظامیہ اور نہ ہی حکومت نے ان کو یہ کہا ہے کہ یہاں آپریشن ہو رہا ہے آپ یہاں سے جائیں۔ ابھی تک لاکھوں افراد شمالی وزیرستان میں موجود ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ شاید کوئی معاہدہ ہو جائے یا دونوں طرف سے فائربندی ہوجائے۔‘‘
تاحال سرکاری طور پر اس نقل مکانی یہ ان افراد کی دیکھ بھال سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
حکومتی عہدیدار شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی باقاعدہ کارروائی نہیں ہورہی تاہم ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والوں کو جواب ضرور دیا جائے گا۔
ادھر ایک اور قبائلی علاقے باجوڑ کے دو اہم قبائل سالارزئی اور ماموند زئی نے اپنے جرگوں میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔
سالارزئی قبیلے کے ایک رہنما ملک ناصر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جرگے میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کا کیا جائے گا۔
قبائلی جرگے نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ امن کمٹیوں کو فعال بنا کر پاک افغان سرحد کی نگرانی کا عمل بھی تیز کیا جائے۔
پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے چھ کی سرحدیں افغان سرحد سے ملتی ہیں اور مبصرین و ناقدین یہ کہتے آئے ہیں افغانستان کے ساتھ مشکل اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل طویل سرحد کی موثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے شدت پسند باآسانی سرحد کے آرپار نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں۔