اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیانگ یانگ کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے خلاف نئی سخت پابندیاں عائد کیے جانے کے چند ہی گھنٹوں بعد شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے متعدد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ داغے ہیں۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے مطابق وہ تاحال ان چھوٹے میزائلوں کی تعداد اور نوعیت کا تعین کرنے میں مصروف ہے جو کہ اس کے بقول بحیرہ جاپان میں جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے داغے گئے۔
یہ اقدام بدھ کو سلامتی کونسل کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی گئی اس قرارداد کا رد عمل ہوسکتا ہے جس میں پیانگ یانگ کو اس کے حالیہ جوہری تجربے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والا راکٹ چھوڑے جانے کی پاداش میں سخت تعزیرات کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے رائے شماری کے بعد سلامتی کونسل کو بتایا کہ " شمالی کوریا پوری دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس نے اکیسویں صدر میں جوہری تجربہ کیا۔ دراصل اس نے ایک نہیں چار جوہری تجربے کیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے کہ شمالی کوریا اپنے عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دے وہ مستقل اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل کے پروگراموں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
"عملی طور پر اس (شمالی کوریا) کے تمام وسائل لگاتار اور غیر ذمہ دارانہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔"
ادھر امریکہ کے صدر براک اوباما نے اقوام متحدہ کی طرف سے کیے گئے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ " آج بین الاقوامی برادری نے یک زبان ہوکر پیانگ یانگ کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ شمالی کوریا یہ خطرناک پروگرامز ترک کرے اور اپنے لوگوں کے لیے ایک بہتر راستے کا انتخاب کرے۔"
نئی سخت تعزیرات میں متعدد اقدام شامل ہیں جن میں شمالی کوریا سے آنے اور جانے والے سامان کی مکمل جانچ لازمی ہوگی اور اس ملک کو روایتی و غیر روایتی کسی بھی قسم کے اسلحہ کی فراہمی و فروخت پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔
علاوہ ازیں شمالی کوریا سے کوئلے سمیت دیگر معدنیات خریدنے پر بھی پابندی ہوگی۔