شمالی کوریا نے ایک اور بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جنپنگ کی اس ملاقات سے محض 48 گھنٹے قبل کیا گیا جس میں وہ پیانگ یانگ کے جوہری ارادوں پر تبادلہ خیال کرنے جا رہے ہیں۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے ایک تحریری پیغام میں بتایا کہ پیانگ یانگ نے بدھ کو علی الصبح میزائل داغا جو کہ تقریباً 60 کلومیٹر تک پرواز کر کے مشرقی سمندر میں جا گرا۔
ایک مختصر بیان میں، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے کہا ہے کہ ’’شمالی کوریا نے ایک اور درمیانے فاصلے تک وار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ امریکہ شمالی کوریا کے بارے میں بہت بات کر چکا ہے۔ ہم اس پر مزید بیان نہیں دیں گے‘‘۔
بیلسٹک میزائل کی ٹیکنالوجی کے حامل کسی بھی راکٹ کا تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، لیکن شمالی کوریا یہ کہہ کر مسلسل یہ خلاف ورزیاں کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق اور خلائی تحقیق کو استعمال میں لا رہا ہے۔
بدھ کو ہونے والے اس تجربے سے پہلے صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی کوریا کے معاملے پر اگر چین پیش رفت نہیں کرتا تو امریکہ اس بابت اکیلے ہی آگے بڑھنے کو تیار ہے۔
شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے اس سخت بیان اور جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کی مشترکہ مشقوں پر واشنگٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پیانگ یانگ اسے اپنے ہاں مداخلت کی تیاری تصور کرتا ہے۔
جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس حکام نے پیر کو دیر گئے متنبہ کیا تھا کہ شمالی کوریا، امریکہ اور چین کے صدور کی ملاقات پر "اثرانداز" ہونے کے لیے اپریل کے پہلے ہفتے میں جوہری تجربہ کر سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ جنوبی کوریا کے دورے پر آئے امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا تھا کہ "میں یہ بہت واضح انداز میں بتا دوں کہ تحمل کی پالیسی ختم ہو چکی ہے۔ ہم شمالی کوریا سے متعلق سفارتی، سکیورٹی اور اقتصادی اقدام سمیت نئے اقدام پر غور کر رہے ہیں۔"
رواں ماہ ہی اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات میں ٹلرسن نے کہا تھا کہ جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی "خطرناک حد تک" پہنچ چکی ہے۔