رسائی کے لنکس

یوکرین میں لڑائی تیز ہوئی ہے، لیکن ضرورت سے زیادہ مت سوچیں: امریکی جنرل


جنرل مارک ملی نارمنڈی ، فرانس میں جنگ عظیم دوم کی یادگاری تقریب میں شریک ہیں۔ فوٹو اے پی
جنرل مارک ملی نارمنڈی ، فرانس میں جنگ عظیم دوم کی یادگاری تقریب میں شریک ہیں۔ فوٹو اے پی

امریکہ کے جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ یوکرین میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے ۔۔تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ لڑائی کی روزانہ کی سرگرمیوں پر زیادہ غور نہ کیا جائے ۔ امریکی جنرل نے کہا کہ روس اور یوکرین کے ان حصوں میں جو روس کے قبضے میں ہیں، لڑائی تیز ہوئی ہے ، اور اگر یہ لڑائی طویل عرصے جاری رہی تو ممکن ہے ایسے دن آئیں، جب لڑائی بہت زیادہ ہو اور ایسے دن بھی آئیں ، جب لڑائی کا زور کم رہے۔

انہوں نے یہ بات دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے تاریخی شہر نارمنڈی میں امریکی فوجیوں کی یاد میں منائی جانے والی تقریب کے موقعے پر خبر رساں ادارے ا یسوسی ایٹڈ پریس سے ایک انٹرویو میں کہی۔یہ انٹرویو ایسے وقت پر ہوا ہے، جب امریکی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل ملی اپنے چار دہائیوں کے فوجی کیریئر کو الوداع کہہ رہے ہیں ۔ چیئرمین ملی امریکی فوج کے 82 ویں ایئر بورن ڈویژن اور 101 ویں ایئر بورن ڈویژن کے کمانڈر رہے ہیں ، جو دوسری جنگ عظیم میں نارمنڈی فرانس میں تعینات رہے۔ امریکی جنرل کا ان کے اعلیٰ کمانڈر کے طور پر نارمنڈی کا یہ آخری دورہ تھا۔

تقریب میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھی شریک تھے ، جبکہ جنگ عظیم دوم کے سابق فوجیوں اور ان کے عزیزوں نے بھی تقریب میں شرکت کی، جو جنگ عظیم دوم کے دوران ڈی ڈے کہلانے والے اس بڑے حملے کی 79 ویں برسی منانے آئے تھے، جس میں ساڑھے نو ہزار امریکی فوجیوں کی جانیں گئیں۔ تقریب میں شرکت کرنے والے کچھ سوگوار پھولوں کے گلدستے لائےتھے اور کچھ کے ہاتھوں میں امریکی پرچم تھے۔

ایسی ہی ایک بڑی تقریب برٹش نارمنڈی میموریل میں بھی ہوئی، جس میں جرمنی اورجنگ عظیم دوم میں امریکہ کے ابتدائی اتحادی نو ملک، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، برطانیہ، نیدرلینڈز، پولینڈ، ناروے اور امریکہ اور فرانسیسی کی مسلح افواج کے وزیر وں نے شرکت کی۔

نارمنڈی فرانس کا یہ امریکی قبرستان، تقریباً ساڑھے نو ہزار امریکی فوجیوں کی آخری آرام گاہ ہے۔ جو 79 سال قبل 6 جون 1944 کو جنگ عظیم دوم کے دوران ڈی ڈے کے نام سے جانے جانے والے تاریخی حملے میں ہلاک ہوئے۔ اس لڑائی میں لاپتہ ہونے والے 1,557 فوجیوں کے نام قبرستان کی دیواروں پر کندہ ہیں۔ ان میں کئی قبریں ایسی ہیں، جن میں مدفون فوجیوں کی شناخت بھی نہیں ہوسکی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم گزرے تقریبا آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس جنگ کے خوفناک مناظر اور تجربات مغربی ملکوں میں پلنے بڑھنے والی نئی نسل کی یاد داشت سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں جنگ عظیم دوم کی یاد میں منائی جانے والی تقریبات کا مقصد امریکہ اور مغربی اتحادی ملکوں کو یہ یاد دہانی کروانا ہے کہ جنگ ایک خوفناک چیز ہوتی ہے۔

نارمنڈی کے قبرستان پر پانچ جون دوہزار تئیس کو ایک جہاز محو پرواز
نارمنڈی کے قبرستان پر پانچ جون دوہزار تئیس کو ایک جہاز محو پرواز

جنگ عظیم دوم کی یادیں اور یوکرین

ستانوے سالہ میری سکاٹ نے سترہ سال کی عمر میں دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا ،انہوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھےآج بھی فائرنگ اور مردوں کی چیخوں کی زبردست آواز یں سنائی دیتی ہیں ۔

تقریب میں شریک سابق برطانوی فوجی ، مروین کرش کا کہنا تھا کہ مغربی اتحادیوں کو یوکرین کو زیادہ سے زیادہ فوجی امداد بھیجنی چاہیے، ان کا تجربہ ہےکہ آزاد رہنے کا واحد راستہ طاقتور ہونا ہے۔

چئیرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملی ،نارمنڈی کی تقریب میں
چئیرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملی ،نارمنڈی کی تقریب میں

اٹھانوے سالہ کرش نے مزاح کے انداز میں کہاکہ میں ابھی بھی ریزرو فوجی ہونے اور اگلی نوکری کے لئے یوکرین جانے کا انتظار کر رہا ہوں۔

نارمنڈی میں جانیں دینے والےنوجوان فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنا سابق فوجیوں، حکام اور مہمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ یوکرین کو آج کس چیز کا سامنا ہے۔

جرمن پروفیسر اینڈریاس فوکس، جو برلن میں فرانسیسی پڑھا رہے ہیں، 10 سے 12 سال کی عمر کے طالب علموں کو ایک ایکسچینج پروگرام کے ذریعے نارمنڈی لائے۔

ان کا مشورہ تھا کہ ،یورپ کی آزادی کو سمجھنے کے لئے مغربی ملکوں کے شہریوں کو اپنی زندگی میں سے ایک لمحہ نارمنڈی میں گزارنا چاہئے تاکہ وہ جان سکیں کہ 80 سالوں سے دنیا میں امن کس طرح قائم رہا ہے اور اسے قائم رکھنا کیوں ضروری ہے۔

(خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG