پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل منصور صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان کے تحت 140 غیر سرکاری تنظیموں سے دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈی جی نے بتایا کہ 40 غیر منافع بخش ادارے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں 64 ہزار فلاحی تنظیمیں رجسٹرڈ تھیں جن میں سے غیر فعال 30 ہزار غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی ہے۔
منصور صدیقی کے بقول دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ایک جامع پالیسی کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔ کالعدم تنظیمیں اب قربانی کی کھالیں اور چندہ جمع نہیں کر سکتیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی پانچ بنیادی شرائط پر مکمل عمل درآمد کر چکے ہیں۔ البتہ 27 نکاتی ایکشن پلان کی بعض شرائط پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کی کارگردگی کا جائزہ آئندہ سال فروری میں لے گی۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اکتوبر 2019 تک ایکشن پلان پر عمل درآمد مکمل کرنے کا کہا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے مکمل عمل درآمد نہ کیے جانے کے باعث تنظیم نے پاکستان کا نام فروری 2020 تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ شدّت پسندوں کی مالی امداد روکنے میں مبینہ طور پر ناکامی کے بعد پاکستان کا نام گزشتہ برس اگست میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
ڈی جی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ منصور صدیقی کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے 41 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اگست 2019 تک 73 کروڑ روپے کے جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔
کمیٹی اراکین کے اس سوال پر کہ کیا پاکستان آئندہ سال فروری میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جائے گا؟ منصور صدیقی نے کہا کہ 27 نکاتی ایکشن پلان کے تمام پہلوؤں پر قابلِ اطمینان پیش رفت کر چکے ہیں اور وہ پاکستان کا مقدمہ بھر پور انداز میں پیش کریں گے۔
غیر فعال قرض میں 124 ارب روپے کا اضافہ
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ ایک سال کے دوران غیر فعال قرضوں میں 124 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے اور ستمبر 2019 تک بینکوں کے غیر فعال قرضے 758 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ توانائی سیکٹر کے قرضے 36 ارب روپے سے بڑھ کر 86 ارب روپے ہو گئے ہیں جب کہ شوگر انڈسٹری کے قرضے 16 ارب روپے سے بڑھ کر 44 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
ڈپٹی گورنر نے بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے قرضے 186 ارب روپے سے کم ہو کر 182 ارب روپے پر آ گئے ہیں۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق قرض ڈیفالٹرز کے 49 ہزار کیسز بینکنگ کورٹس میں زیرِ التوا ہیں۔
ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مشکلات
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبّر زیدی نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں ٹیکس وصولیوں میں 16 فی صد اضافہ ہوا اور جولائی تا اکتوبر کے عرصے میں 12 کھرب 81 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران گیارہ کھرب ایک ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا تھا۔
شبّر زیدی کے بقول جولائی تا اکتوبر ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال 166 ارب روپے رہا ہے جبکہ چار ماہ کے اس عرصے میں درآمدات میں کمی کے باعث 224 ارب روپے ٹیکس کم اکٹھا ہوا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ رواں مالی سال کے مقرر کردہ ٹیکس اہداف میں کمی پر بات چیت جاری ہے۔ امید ہے کہ آئی ایم ایف کو ٹیکس ہدف کم کرنے پر قائل کرلیں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مالی سال کے لیے 55کھرب 50 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا تھا جس کے حصول میں ایف بی آر کو مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیر خزانہ اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عمل کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس پر خاطر خواہ عملدرآمد کیا گیا ہے جس کی مثال بینک نظام میں اصلاحات ہیں۔
اشفاق حسن کے مطابق کہ ڈیڑھ سال قبل تک اکثر خبریں آتی تھیں کہ کسی ٹھیلے والے، ریڑھی والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے نکل آئے ہیں۔ یہ بینکنک سسٹم میں نقائص تھے جنہیں دور کیا گیا ہے اور اب ایسی خبریں نہیں آرہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی مالی ترسیل کی روک تھام کے اقدامات پاکستان کے مفاد میں ہیں لیکن ایف اے ٹی ایف کو بہتری کے لیے پاکستان کی مدد کرنا چاہیے۔