فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو آئندہ برس فروری تک 'گرے لسٹ' میں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پانچ روز سے جاری اجلاس جمعے کو اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے کی۔
اجلاس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے حکام نے ایک پریس کانفرنس میں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان کیا۔
حکام نے بتایا کہ پاکستان بدستور 'گرے لسٹ' میں رہے گا اور اسے 'بلیک لسٹ' میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے فروری 2020 تک کا وقت دے دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے اسداللہ خالد کے جانب سے ایف اے ٹی ایف کے صدر زیانگ من لیو سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل درآمد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس پر زیانگ من لیو نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کی استعداد کار بڑھانے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستان کو 2015 میں وائٹ لسٹ میں شامل کیے جانے اور موجودہ صورتِ حال کے ساتھ اس کے موازنے سے متعلق سوال پر ایف اے ٹی ایف کے صدر کا کہنا تھا کہ اس وقت اتنی باریک بینی سے حالات کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کی حالیہ کاوشوں میں سقم موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے اجلاس کے اختتام پر ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے پاکستان کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کو روکنے کے لیے پاکستان نے مزید کوششں کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کی مالی مدد کی روک تھام کے لیے پاکستان کی محدود کامیابی پر گہری تشویش کا بھی اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے دیگر اہداف حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان نے ایکشن پلان کے 27 میں سے پانچ نکات پر کام کیا ہے جب کہ ایکشن پلان کے دیگر نکات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان نے فروری 2020 تک اپنے ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ کیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ بھارت پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے سے بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے سرگرم تھا, جب کہ پاکستان کی کوشش تھی کہ اس کا نام وائٹ لسٹ میں شامل ہو جائے۔
ایف اے ٹی ایف کی 'گرے لسٹ' میں ایسے ملکوں کو شامل کیا جاتا ہے جہاں سے پیسے کی غیر قانونی ترسیل یا دہشت گردوں کی مالی معاونت ہوتی ہے۔ ایسے ملکوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔
پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایے کے استعمال کی روک تھام سے متعلق 27 نکات پر مشتمل رپورٹ پیش کی تھی۔
وائس آف امریکہ کے پیرس میں موجود نمائندے اسد اللہ خالد کے مطابق ملائیشیا، چین اور ترکی نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام اور منی لانڈرنگ کے انسداد کے لیے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی ہے۔
بھارت کا مؤقف
بھارت نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے دوران یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ پاکستان نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، جب کہ کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کے منجمد اثاثوں سے اُنہیں رقوم نکلوانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے وفاقی وزیر حماد اظہر نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا، جب کہ بھارتی وفد کے ایک رکن نے وی او اے کو بتایا کہ بھارت کی یہ پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جائے۔
چھ روز سے جاری اجلاس کے دوران حکومتِ پاکستان کی ایمنسٹی اسکیم پر بھی ایف اے ٹی ایف کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے اثاثے ظاہر کرنے کے عوض ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے رواں سال ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اس اسکیم کا مقصد بے نامی اثاثے رکھنے والوں کو قانون کے دائرے میں لانا ہے۔
ماہرین کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں ایسے ٹھوس اقدامات کیے ہیں جو اس وقت بھی نہیں کیے گئے تھے جب پاکستان وائٹ لسٹ میں تھا۔
سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ وقار مسعود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان نے اپنا معاشی نظام بہت بہتر بنا لیا ہے۔ اُن کے بقول، پاکستان اب زیادہ دیر تک 'گرے لسٹ' میں نہیں رہے گا۔
پاکستان کی فنانشل مارکیٹ کے ذرائع کے مطابق اگر پاکستان 'گرے لسٹ' میں ہی رہتا ہے تو یہ پاکستان کے کاروباری اداروں کے لیے کوئی منفی خبر نہیں ہو گی، جب کہ اس سے حکومت کو مزید وقت مل جائے گا کہ وہ مزید اقدامات کر سکے۔
'گرے لسٹ' میں شامل دنیا کے دیگر ممالک
پاکستان کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سری لنکا، کمبوڈیا، بہامس، تیونس، شام، سربیا، گھانا، ایتھوپیا، یمن، ٹرینیڈیڈ اینڈ ٹوبیگو بھی شامل ہیں۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس سے قبل تین مرتبہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔ پاکستان کو 2008، 20012 اور 2015 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ تاہم خاطر خواہ اقدامات کرنے پر پاکستان دوبارہ وائٹ لسٹ میں آ گیا تھا۔ جب کہ گزشتہ سال پاکستان کو دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا۔
پاکستان کو گرے لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا؟
پاکستان کا نام گزشتہ سال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے 'گرے لسٹ' میں شامل کیا گیا تھا۔ اس ادارے کے مطابق پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور کالا دھن کنٹرول کرنے کے ضمن میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے۔ گزشتہ سال جون میں جب پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں شامل کیا گیا تو اس وقت پاکستان میں نگران حکومت قائم تھی۔
گزشتہ سال فروری میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے تمام ذرائع بند کرے۔ پاکستان کے خلاف ان اقدامات کے محرک امریکہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک تھے۔
نیشنل ایکشن پلان
پاکستان نے 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا۔ اس کے تحت چاروں صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں قائم کی گئیں تھیں جن کا مقصد صوبوں میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی تھا۔
حالیہ عرصے میں پاکستان نے عالمی سطح پر دہشت قرار دیے جانے والے حافظ محمد سعید کو گرفتار کرنے کے علاوہ جماعت الدعوہ کے زیرِ انتظام چلنے والے رفاعی ادارے بھی اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔
خیال رہے کہ بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ جماعت الدعوہ اور کالعدم جیش محمد بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اور پاکستان بطور ریاست ان تنظیموں کی سرپرستی کرتا ہے۔