وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد عدالتی نظام کے مفلوج ہونے سے فاٹا ٹریبونل میں تصفیہ طلب مقدمات التواء کا شکار ہو رہے ہیں
ان مقدمات میں سابق پولیٹکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کے 23 مئی 2012 کے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سزاء دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل سرفہرست ہیں۔
31 جنوری 2019 کو کمشنر پشاور نے، جو فرنٹیر کرائمز ریگولیشن ٹریبونل کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل کی سماعت 4 اپریل تک موخر کر دی گئی ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جون 2011 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد رہائش گاہ کی نشاندہی اور ان کے خلاف امریکی خفیہ اداروں کی کارروائی میں معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ بعد میں سابق قبائلی علاقوں میں رائج قانون کے تحت ڈاکٹر شکیل کو 33 سال قید کی سزاء سنائی گئی تھی۔
بعد ازاں ایک اپیل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دی جانے والی سزاء میں تخفیف کی گئی۔ تاہم، 29 جولائی 2013 کو اس سزاء کے خلاف ایف سی آر ٹریبونل میں اپیل دائر کردی گئی جو ابھی تک زیر سماعت ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم ایڈوکیٹ نے وائس آ ف امریکہ کو بتایا کہ انضمام کے بعد سابق قبائلی علاقوں کا عدالتی نظام بالخصوص ایف سی آر ٹریبونل مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل بلکہ سابق پولیٹکل انتظامیہ کے فیصلوں کے خلاف سینکڑوں اپیلوں کی سماعت تاخیر کا شکار ہے، جبکہ اب تو، ان کے بقول، ایف سی آر ٹریبونل کے غیر سرکاری ممبران کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر قانون سلطان محمد خان نے بتایا کہ سپریم کو رٹ کی ہدایات کے مطابق سابق قبائلی علاقوں میں عدالتی نظام کے قیام کے لئے اعلامیہ جاری ہو چکا ہے اور اس پر آئندہ چند دنوں تک کام شروع ہو جائے گا۔
وزیر قانون نے بتایا کہ ہر نئے ضلع میں سیشن جج سربراہ ہو گا اور ان کے ساتھ دیگر ایڈیشنل، سینئر اور سول جج، پشاور ہائی کورٹ کے ذریعے تعینات کئے جائیں گے۔
ادھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے بھائی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اپیل کی سماعت اور جلد فیصلہ کرنے کی راہ میں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفرید ی کو گرفتاری سے لے کر اب تک قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے۔ انہیں ایک سال قبل سیکورٹی کی بنیاد پر پشاور سینٹرل جیل اور اس سے پہلے راولپنڈی کی اڈیالہ اور بعد میں پنچاب کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
جمیل آفریدی کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی اب ساہیوال میں قید ہیں اور ان کے ساتھ ملاقات اور ملنے جلنے پر غیر اعلامیہ پابندی ہے۔ جیل حکام اور اہل کار ان کے ساتھ ملاقات کروانے سے مسلسل انکاری ہیں۔
سن 2012 سے اب تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مقدمے کی پیروی کرنیوالے دو وکلاء نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔