پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز کا کہنا ہے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان فی الوقت نہ تو کوئی ملاقات طے ہے اور نہ ہی اس کا تاحال کوئی امکان ہے۔
جنرل اسمبلی کا اجلاس آئندہ ہفتے شروع ہو رہا ہے جس میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کے تناظر میں امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کو کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدام کرنے چاہیئں اور ایسے میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر شاید ملاقات ہو سکتی ہے۔
تاہم بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ابھی کسی بھی طرح کی قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں اور ان کے ملک کی طرف سے ایسے کسی امکان پر غور نہیں کیا جا رہا۔
"جس بنیاد پر وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں وہ تو ہمیں منظور نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ صرف دہشت گردی پر بات ہو باقی چیزوں پر نہ ہو کشمیر کے معاملے پر بحث نہیں ہوگی تو ظاہر ہے ہمارے لیے یہ قابل قبول نہیں تو اب یہ بات ہے کہ ہم نیم دلی ظاہر کریں تو وہ کہیں گے ہم مذاکرات نہیں کرنا چاہتے اور ہم کہیں ہماری بڑی دلچسپی ہے تو وہ بھی ٹھیک نہیں تو اس پر قیاس آرائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان آخری ملاقات جولائی میں روس کے شہر اوفا میں منعقدہ ایک کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے تعلقات میں تلخی کو کم کرنے کے مختلف اقدام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تناؤ کی ایک بڑی وجہ حالیہ مہینوں میں ورکنگ باؤنڈری اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ و گولہ باری کے پے در پے تبادلے اور اس میں ہونے والی ہلاکتیں ہیں۔
دونوں ملک 2003ء کے فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی فورس رینجرز اور بھارت کی سرحدی فورس کے سربراہان کے درمیان نئی دہلی میں ملاقات ہوئی تھی جس میں فائرنگ کے تبادلوں کے سدباب بارے امور زیر بحث آئے تھے۔
لیکن اس ملاقات کی بازگشت بھی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان نے ایک بار پھر بھارتی فورسز پر فائربندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین روز کے دوران کشمیر میں حدبندی لائن کے پار سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔
بدھ کو بھی ایسے ہی ایک واقعے میں ایک پاکستانی شہری کے زخمی ہونے کا بتایا گیا جب کہ ایک روز قبل حکام کے بقول ایک پاکستانی فوجی بھی بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
بدھ کو ہی پاکستان نے اسلام آباد میں نائب بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے فائربندی کی خلاف ورزی اور اپنے ایک فوجی کی ہلاکت پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی فوج کے دعوؤں پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔