وائس آف امریکہ کے نئے نگراں مائیکل پیک نے وعدہ کیا ہے کہ امریکی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے کے باوجود وہ اپنے ادارے کے ذریعے دنیا بھر میں آزاد صحافت کو فروغ دینے کے لیے اپنا متعین شدہ کردار نبھائیں گے۔
مائیکل پیک نے حال ہی میں امریکی ادارہ برائے عالمی ذرائع ابلاغ یعنی یو ایس اے جی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔ یہ ادارہ وائس آف امریکہ (وی او اے) اور بین الاقوامی میڈیا سے متعلق دوسرے امریکی اداروں کا نگران ہے۔
نئے سربراہ نے وائس آف امریکہ کے صحافیوں اور دوسرے عملے کے نام ایک ای میل میں کہا ہے کہ وہ وی او اے کے منشور کی پاسداری اور دنیا بھر میں اپنے بہادر صحافیوں کی آزادی کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مائیکل پیک کو یو ایس اے جی ایم کی سربراہی کے لیے دو سال قبل نامزد کیا تھا۔ لیکن ڈیموکریٹس کی سخت مخالفت کی وجہ سے ایسا صرف دو ہفتے پہلے ہی ممکن ہوسکا کہ ری پبلکنز کی اکثریت والے سینیٹ نے ان کے نام کی منظوری دی۔ ان کی مدت تین سال ہوگی۔
حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ وائس آف امریکہ کی کرونا وائرس بحران کے دوران چین کی کوریج پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ جب ان سے 15 مئی کو مائیکل پیک کی نامزدگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وائس آف امریکہ برے انداز میں چلایا جارہا ہے۔ وہ امریکہ کی آواز نہیں ہیں۔ وہ امریکہ کی آواز کے برعکس ہیں۔
مائیکل پیک نے عملے کے نام پیغام میں صدر ٹرمپ یا اس تنازع کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ انھوں نے یہ ذکر کیا کہ وہ کسے وائس آف امریکہ کا ڈائریکٹر نامزد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی 2016 سے ڈائریکٹر امینڈا بینیٹ اور ان کی نائب سینڈی سوگاوارا پیر کو مستعفی ہوگئی تھیں۔ دونوں سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ مائیکل پیک کو حق ہے کہ وہ وائس آف امریکہ کے لیے اپنی مرضی کی قیادت لائیں۔
امینڈا بینیٹ وائس آف امریکہ کی آزاد صحافت کی سخت وکالت کرتی تھیں اور انھوں نے صدر ٹرمپ کی حالیہ تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ادارے کے مشن اور رپورٹنگ کا دفاع کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ہم امریکی آئین کی پہلی ترمیم کو دنیا بھر کے لوگوں کو برآمد کرتے ہیں جنھیں حقائق سے بھرپور، سچی اور قابل یقین معلومات تک رسائی نہیں ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم اظہار کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ اسی لیے 60 سے زیادہ ملکوں اور 47 زبانوں میں وائس آف امریکہ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والے 28 کروڑ افراد میں سے 80 فیصد کا کہنا ہے کہ انھیں ہمارے کام پر اعتبار ہے۔
میڈیا پر نظر رکھنے والے بعض بیرونی مبصرین نے مائیکل پیک کی تقرری پر بعض خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیفن بینون کے ساتھی اور قدامت پرست فلمساز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے حق میں نیوز کوریج کے لیے وائٹ ہاؤس کا دباؤ ممکن ہے کہ برداشت نہ کرپائیں۔
نیویارک ٹائمز نے منگل کو اپنے اداریے میں کہا کہ وائس آف امریکہ کے وائٹ ہاؤس کے پروپیگنڈے کا آلہ بن جانے کا خیال سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر تمام امریکیوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ صدر ٹرمپ کو سفارت کاری کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک حامی چاہیے کیونکہ وہ وفاداری پر اصرار کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ اور اس کے ذیلی اداروں کا ماضی میں انتظام سنبھالنے والے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کے ڈائریکٹر نے سرکاری کارروائیوں سے متعلق فیڈرل رجسٹر میں آزاد صحافت کی اپنی طے کردہ تعریف شائع کی ہے۔
ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یو ایس اے جی ایم کی رقوم سے چلنے والے اداروں کو مکمل ادارتی آزادی حاصل ہے جیسا کہ یہ اصطلاح صحافت کی بہترین مشقوں کے مطابق بتائی اور سمجھی جاتی ہے۔ ادارتی آزادی میں یہ حقیقت شامل ہے کہ صرف وہی لوگ رپورٹنگ یا موصول شدہ خبروں کے فیصلے کریں گے جو اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
یو ایس اے جی ایم کے نیٹ ورکس اور ان کے ملازمین، جن میں ہر نیٹ ورک کے سربراہ بھی شامل ہیں، ہر قسم کے سیاسی یا کسی اور بیرونی دباؤ سے آزاد ہیں اور ایسے کاموں سے بھی جو پیشہ ورانہ صحافت کے اعلیٰ معیارات کے مطابق نہیں۔
مائیکل پیک کی عمر 66 سال ہے اور وی ماضی میں امریکی حکومت کے ذرائع ابلاغ سے متعلق بین الاقوامی اور مقامی اداروں میں انتظامی عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ ان کی ای میل کے مطابق انھوں نے حالیہ برسوں میں ایک نجی ادارہ مینی فولڈ پروڈکشنز قائم کیا جس نے 15 دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ ان فلموں کو پبلک براڈکاسٹنگ سروس پر نشر کیا گیا تھا۔
مائیکل پیک نے بتایا کہ انھوں نے اپنی فلموں کے ذریعے امریکہ کی کہانی بیان کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دستاویزی فلمیں بنانے سے کافی تسکین ملتی ہے لیکن میں اپنی تاریخ کے اس اہم موڑ پر بین الاقوامی براڈکاسٹنگ کی طرف واپس آنا چاہتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کے دشمنوں نے پروپیگنڈے اور مسخ معلومات کی کوششوں میں اضافہ کیا ہے۔ وہ دنیا سے متعلق اپنے بے حد مختلف تاثر کو جارحانہ انداز میں فروغ دے رہے ہیں۔
مائیکل پیک نے کہا کہ یو ایس اے جی ایم میں ملازمین کا مورال بلند کریں کی کوشش کریں گے اور ان چند مسائل کو جانچیں گے جو حالیہ برسوں میں میڈیا میں در آئے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ادارے کو زیادہ موثر بنانا ہوگا۔