بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کی گئی جس کے سربراہ سید الطاف بخاری ہیں۔ ایک اخباری کانفرنس میں اتوار کے دن انھوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک علاقائی جماعت ہوگی، تاہم، اس کا نظریہ بھارتی سطح کا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' علاقے کے عوام کی عزتِ نفس اور وقار کو تحفظ فراہم کرے گی، خواتین اور نوجوانوں کو مجاز بنائے گی اور وادی کشمیر سے ترکِ سکونت کرنے والے پنڈتوں (برہمن ہندوؤں) کی عزت کے ساتھ وطن واپسی کو یقینی بنائے گی۔
سید الطاف بخاری نے کہا کہ "یہ صحیح معنوں میں عام لوگوں کی پارٹی ہوگی جسے عام لوگ چلائیں گے اور یہ عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ "ہم اپنی اپروچ میں ہمیشہ فعال، ایماندار اور بے رو رعایت رہیں گے اور عوام کو سیاسی عمل کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز بنائیں گے"۔
کشمیر میں نئی دہلی کا نیا 'پوائنٹ مین"!
الطاف بخاری کو جو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں اور 2014 کے عام انتخابات میں سرینگر کے امیرا کدل حلقے سے منتخب ہوئے تھے، مقامی سیاسی حلقوں میں کشمیر میں نئی دہلی کے نئے 'پوائنٹ مین‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہیں کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی ہدفِ تنقید بنایا اور یہ الزام لگایا کہ وہ نئی پارٹی نئی دہلی کی ایما پر تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم، الطاف بخاری نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
ناقدین اور تجزیہ نگاروں دونوں کی یہ رائے ہے کہ 'اپنی پارٹی' کو جموں و کشمیر کی سب سے پُرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور اس کی روایتی حریف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے "متبادل" کے طور پر پیش کیا جائے گا اور یہ کوشش کی جائے گی کہ یہ مختصر وقت میں اس قابل بن جائے کہ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں ان کا اور دوسری سیاسی جماعتوں کا فعال مقابلہ کر سکے۔
بھارتی حکومت اور مقامی انتظامیہ ان انتخابات کو اسی سال کرانے کے حق میں ہے۔ تاہم، نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کی نئی انتخابی حد بندی کی جائے۔ بی جے پی کو توقع ہے کہ نئی انتخابی حد بندی کے نتیجے میں ہندو اکثریتی جموں کے خطے کو وادی کشمیر، جہاں کُل آبادی کا 97 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ملیں گی جو اس کے اقتدار میں آنے کے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے۔
بھارتی حکومت نے جمعے کو جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ میں پارلیمنٹ کے ایوانِ زیرین لوک سبھا اور صوبائی اسمبلی حلقہ ہائے انتخاب کی نئی حد بندی کے لیے سپریم کورٹ کی ایک سابق جج رنجنا پرکاش ڈیسائی کی قیادت میں ایک ڈیلیمیٹیشن کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔
پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری، بندشوں اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ان سخت گیر اقدامات کے نتیجے میں سابقہ ریاست، بالخصوص وادی کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں ہیں۔ صرف بی جے پی ہی محدود پیمانے پر سیاسی طور پر سرگرم ہے۔
نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور دوسری علاقائی جماعتیں آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو جس کے تحت ریاست کو خصوصی پوزیشن حاصل تھی اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
اتوار کو صحافیوں کی طرف سے پوچھے گیے سوالوں کے جواب میں الطاف بخاری نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ لوگ مایوسی کا شکار ہیں، سیاحت کم ہو کر صفر ہوگئی ہے اور مقامی صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ چیلنج بہت بڑے ہیں۔
انہوں نے ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے عہد کا اظہار کرتے ہوئے تمام پرخلوص سیاسی کارکنوں، لیڈروں اور عام لوگوں کو ان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا حصہ بننے کی اپیل کی۔