رسائی کے لنکس

سرینگر: سوشل میڈیا کے استعمال پر عائد پابندی ہٹا لی گئی


انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے پر، لیپ ٹاپ اٹھا کر کشمیری صحافیوں نے مظاہرہ کیا (فائل)
انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے پر، لیپ ٹاپ اٹھا کر کشمیری صحافیوں نے مظاہرہ کیا (فائل)

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے بدھ کے روز علاقے میں سوشل میڈیا کے استعمال پر کئی ماہ سے جاری پابندی ختم کر دی ہے۔ تاہم، براڈ بینڈ سمیت ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروسز پر پابندی کو 17 مارچ تک بڑھا دیا گیا ہے۔

سرمائی صدر مقام جموں میں محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کیے گیے حکم نامے میں ویب سائٹس کو وائٹ لسٹ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے، حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اب موبائل فونز اور فکسڈ لائنز پر دستیاب کم رفتار والی انٹرنیٹ سروسز 2 جی کے ذریعے تمام ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ صرف مخصوص ویب سائٹس تک رسائی کے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی جموں و کشمیر کی مجموعی حفاظتی صورتِ حال پر مواصلاتی سروسز کے استعمال سے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد کی گئی۔

تاہم، براڈ بینڈ، تیز رفتار تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سروسز پر عائد پابندی مزید دو ہفتوں تک بڑھا دی گئی ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار صرف 2 جی تک ہی محدود رہے گی۔ ٹیلی کام کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ یہ سروس پری پیڈ سم کارڈوں پر صارف کے کوائف کی مکمل تصدیق کے بعد ہی فراہم کی جائے۔

بھارتی حکومت نے گزشتہ اگست میں جب جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے اسے براہ راست وفاق کے کنٹرول والے دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا ریاست میں مواصلاتی بلیک آؤٹ کے تحت انٹرنیٹ سروسز پر پابندی عائد کی تھی۔ اگرچہ اس سال جنوری میں انٹرنیٹ سروسز کو جزوی طور پر بحال کیا گیا، صارفین صرف حکومت کی طرف سے وائٹ لسٹڈ قرار دی گئی ویب سائٹس تک ہی رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ سوشل میڈیا سائٹس بالخصوص فیس بک، ٹویٹر، انسٹگرام اور واٹس اپ پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے گزشتہ ماہ سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجازی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) کا استعمال کرنے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

پولیس کی سائبر کرائم سیل نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے خلاف ایک کھلی (اوپن) ایف آئی آر درج کی تھی جس کے بعد درجنوں افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں مقامی پولیس، بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستے ایسے افراد کو ہراساں کر رہے تھے جن کے موبائل فونز پر انہیں وی پی اینز انسٹال کی ہوئی ملتی تھیں۔

پولیس اور دوسرے حفاظتی دستے بالخصوص جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں عام لوگوں کو چیک پوائنٹس پر روک کر ان کے موبائل فونز کی جانچ کرتے تھے اور ان میں وی پی اینز پانے کی صورت میں انہیں فوری طور پر ڈیلیٹ کرتے یا کراتے تھے۔ انہیں استعمال کرنے والوں کی سرزنش کی جاتی تھی اور بعض کو مبینہ طور پر مارا پیٹا بھی گیا۔ کئی لوگوں نے شکایت کی کہ ان کے موبائل فونز میں وی پی این پانے کے بعد حفاظتی دستوں نے نہ صرف ان کی تذلیل کی بلکہ انہیں کئی گھنٹوں تک ان چیک پوائنٹس پر یا کیمپوں میں روکے رکھا۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس، دلباغ سنگھ نے سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی این کا استعمال کرنے والے لوگوں کو خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پولیس سربراہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے وی پی اینز کا استعمال "افواہیں پھیلانے اور امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کی غرض سے" کیا جاتا ہے۔

حکومت کے تازہ حکم نامے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے تجزیہ نگار پروفیسر شیخ شوکت حسین نے کہا کہ "حکومت وی پی اینز کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی کو نہیں روک پائی۔ لہٰذا، اس پر پابندی کو ہٹانے ہی میں عافیت سمجھی گئی۔"

مواصلاتی بندشوں اور بعدازاں کم رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے صرف اُن ویب سائٹس تک رسائی جنہیں حکومت نے وائٹ لسٹ میں ڈالدیا تھا، تاجروں بالخصوص آئی ٹی کمپنیوں اور ان سے وابستہ افراد، ٹوریزم انڈسٹری، آن لائین انٹر پرنیورس، نئے اسٹارٹ اپس، طالبعلموں، ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے اور صحافیوں کے لیے طرح طرح کی مشکلات اور بھاری مالی نقصان کا باعث بن رہی تھیں، جبکہ عام لوگ بھی اس صورتِ حال کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔

سرکردہ صحافی اور سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ 'کشمیر امیجز' کے مدیر بشیر منظر تیز رفتار انٹرنیٹ پر جاری پابندی سے پیدا شدہ صورتِ حال کے بارے میں کہتے ہیں "لگتا ہے حکومت نے اس سارے معاملے کو ایک مذاق بنا دیا ہے‘‘۔

بقول ان کے، اخبارات اور صحافیوں کو گزشتہ سات ماہ سے بڑی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دنیا 5 جی اور 6 جی تک پہنچ رہی ہے اور یہ لوگ 2 جی میں اٹک کر رہ گیے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کے عوام بھاری نقصان اٹھا رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG