بلوچستان کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآر ڈی نیٹر، ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا ہے کہ ’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صحت سے متعلق سہولیات فراہم کرنے کے لئے بھی سکیورٹی فورسز کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سمیت دیگر میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ”بلوچستان کے15 اضلاع میں پیر سے تین روزہ انسداد پولیو مہم شروع ہوگئی ہے۔ لیکن، سخت سکیورٹی انتظامات میں۔ مہم کے دوران 5 سال سے کم عمر کے 16 لاکھ 56ہزار 481 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے اور یہ کام 3 ہزار 9 سو 97 ٹیمیں انجام دیں گی''۔
لیکن، بقول اُن کے، ان کی حفاظت کے لئے بھی پولیس کے 1600اور لیوز کے 300 اہلکار تعینات کئے جائیں گے، جبکہ اس ضمن میں ایف سی اور پاک آرمی کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے ورنہ باقی دنیا پولیو کے پاک ہوچکی ہے۔ پاکستان کے لئے بھی ایسی ہی صورت حال درکار ہے اسی لئے سخت سیکورٹی چیلنجز اور مشکل حالات کے باوجود انسداد پولیو مہم کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاک افغان پارڈر پر واقع ’ فرینڈ شپ گیٹ‘ پر5 سال کی بجائے 10 سال تک کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ تاہم، افغانستان سے اس مرض کی ممکنہ منتقلی کو بھی روکا جاسکے۔
انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”گزشتہ سال پولیو کے 7 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں پانچ کیسز کوئٹہ اور ایک قلعہ عبداللہ اور ایک لورالائی میں رپورٹ ہوا ۔“
رواں سال قلعہ عبداللہ سے لئے گئے گندے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ بلوچستان کے علاوہ کراچی کے علاقے گڈاپ اور افغانستان کے صوبے قندھار کے شاہ ولی کوٹ میں بھی پولیو کیسز رونما ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کوئٹہ، پشین اور باالخصوص ضلع قلعہ عبداللہ میں بچوں کے لئے پولیو وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ “
ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ عالمی سطح پر پولیو وائرس پر نظر رکھنے والے خصوصی گروپ ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے قلعہ عبداللہ میں پولیو وائرس کی موجودگی پر حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ علاقے پر خصوصی توجہ دے کر پولیو کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے ۔یہاں پولیو کے خاتمے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اس سلسلے میں سخت محنت کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان میں سب سے پہلے پولیو کا خاتمہ ممکن ہو۔
انہوں نے کہا کہ انسداد پولیو مہم کو کامیاب اور ہر بچے کو قطرے پلانے کیلئے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی بھی خدمات لی جا رہی ہے، جو ہائی رسک علاقوں میں کام کریں گے جہاں بچوں تک رسائل مشکل ہے اس ضمن میں ٹرانزٹ پوائنٹس پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، تاکہ پولیو وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔